Saturday, 29 March 2014

پہرہ اور عمومی ڈیوٹیزکی اہمیت و فضائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پہرہ اور عمومی ڈیوٹیزکی اہمیت و فضائل

پہرہ جات،ڈیوٹیز یا حفاظتی اقدامات صرف آج ہی کی ضرورت نہ ہیں بلکہ شروع اسلام سے اس کی طرف خاص توجہ دی جاتی رہی ہے۔اور اسی طرح ہماری جماعت میں بھی اس سنت پر عمل جاری رکھا گیا ہے۔ چناچہ خاکسار اسلامی تعلیمات کے تناظر میں پہرہ جات اور حفاظتی انتظامات کی اہمیت پر روشنی ڈالے گا۔
 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [آل عمران: 201]

ترجمہ:اے ایماندارو! صبر سے کام لو اور (دشمن سے بڑھ کر) صبر دکھاؤ اور سرحدوں کی نگرانی رکھو۔ اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
حضرت خلیفہ رابع ؒ اس آیت کے فٹ نوٹ میں فرماتے ہیں کہ یہاں سرحدوں کی نگرانی سے مراد چھاؤنیاں بنانا ہے۔
پھر ایک اہم امر ڈیوٹیز کے حوالہ سے یہ ہے کہ اطاعت کی جائےاس بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے۔

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ} [النساء: 60]

ترجمہ: اے ایماندارو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور اپنے فرمانرواؤں کی بھی اطاعت کرو۔
یعنی جو نگران بنایا جائے اس کی اطاعت ہر صورت لازم ہے۔
اور اطاعت بھی کیسی فرمایا:

                                   {وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا} [البقرة: 286]

اعلیٰ ایمان والے مومن کہتے ہیں کہ  ترجمہ:ہم نے سنا اور فوراً اطاعت کی۔
پھر پہرہ اور ڈیوٹی کی حسبِ استطاعت تیاری کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ} [الأنفال: 61]

ترجمہ:اور ( اے مسلمانو! چاہیئے کہ )تم ان (لڑنے والوں) کیلئے جس حد تک ممکن ہو، اپنی طاقتیں جمع کرو (ملکی انتظام کے ذریعہ سے بھی) اور سرحدوں پر چھاؤنیاں بنانے کے ذریعہ سے بھی ان (چھاؤونیوں) کے ذریعہ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈراتے ہو۔ اور ان کے سوا اور (دشمنوں) کو بھی جو ان (سرحدی دشمنوں) کے پرے ہیں۔ تم ان کو نہیں جانتے لیکن اللہ ان کو جانتا ہے۔
پھر فرمایا کہ حفاظت کا سامان ہر وقت رکھو  اور ہوشیار رہو۔

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انْفِرُوا جَمِيعًا} [النساء: 72]

ترجمہ:اے ایماندارو! اپنے بچاؤ (کے سامان ہر وقت) تیار رکھو اور (خواہ) چھوٹی جماعتوں میں (گھروں سے) نکلو یا بڑی جماعتوں میں نکلو (ہمیشہ حفاظت کے سامان پاس رکھا کرو)۔
حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی روشنی میں فرماتے ہیں:
"مسلمان اور تدابیر بھی اختیار کریں عجیب بات ہے مسلمان بار بار مار کھاتے ہیں مگر پھر بھی نہتے ہی رہتے ہیں اور گورنمنٹ مسلمانوں کو تلواریں رکھنے کی اجازت نہیں دیتی تو ہاتھ میں لاٹھی رکھنا کون سا مشکل ہے۔ اگر مسلمان اپنا فرض سمجھ لیں کہ ہاتھ میں سونٹا رکھنا ہے تو وہ بہت حد تک اپنی جانیں بچا سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے خذو ا حذرکم  اپنی حفاظت کا سامان ضرور رکھنا چاہیئے۔ جب دشمن حملہ کر رہا ہے اور  متواتر کر رہا ہے تو  مسلمانوں کیلئےمشکل کیا  ہے کہ چند پیسوں کا بھی نہیں بلکہ کلہاڑا لے کر خود درخت سے شاخ کاٹ کر ڈنڈا بنا لیں۔ جسے ہر وقت اپنے پاس رکھیں حتی کہ نمازوں کیلئے جائیں تو بھی ان کے پاس ہو۔ جب نماز کے وقت تلواریں اور بندوقیں لے جانی جائز ہیں تو ڈنڈا کیوں منع ہوگا۔ پس ہر مسلمان کے پاس ڈنڈا ہونا چاہیئے۔ تاکہ اگر دشمن حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت کر سکے۔ اپنی عورتوں کی حفاظت کر سکے۔ اپنے اموال کی حفاظت کر سکے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ مسلمان کو ظالم نہیں بننا چاہیئے کسی نہتے کو مارنا۔ یا راستہ چلتے کو اس لئے مارنا کہ وہ دشمن کی قوم کا ہے سخت ظلم ہے۔"
(خطباتِ محمود جلد ۱۱   ص 97 )
نیز فرماتے ہیں:
"مومن کو ہر حالت کیلئے ہی یہ حکم ہے خذوا حذرکم ۔ کہ اپنی حفاظت کا سامان اپنے پاس رکھو مگر خصوصا ان حالات میں جن سے ہمارا ملک اس وقت گزر رہا ہے اور جب ایسا سامان پیدا ہورہے ہوں جن کے ہوتے ہوئے سخٹ احتیاط اور بہادری کی ضرورت ہے تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھے۔"
(خطبات محمود جلد ۱۳ ص ۱۳۷)
یعنی اگر بندوقوں اور اسلحہ رکھنے کی اجازت نہ بھی ہو تو حفاظت کی غرض سے ڈنڈے بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
پھر ڈیوٹی کیلئے کھڑے ہونےوالوں کو مکمل تیاری اور چستی سے کھڑا ہونا چاہیے اور مقابلہ کی صورت میں مکمل دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ} [الأنفال: 58]

پس اگر تو لڑائی میں ان پر قابو پالے تو ان کے ذریعہ سے جو ان کے پیچھے (اور لشکر) ہیں ان کو بھی بھگا دے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
پھر ڈیوٹی دینے والے کیسے ہوں؟ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا  فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا{[العاديات: 2 تا 5]

میں شہادت کے طور پر ان جماعتوں کو پیش کرتا ہوں جو گھوڑوں پر چڑھ کر اس طرح بے تحاشا دوڑتی ہیں کہ ان کے گھوڑوں کے منہ سے آوازیں نکلنے لگ جاتی ہیں۔ نیز ان گھوڑ سواروں کو جن کے مرکب چوٹ  مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔پھر صبح ہی صبح حملہ کرنے والوں کو۔جس کے نتیجہ میں اس (صبح کے وقت) میں غبار اڑاتے ہیں۔
یعنی سستی اور کاہلی کا اظہار نہ ہو بلکہ برق رفتار گھوڑوں کی طرح ہوں۔
        پھر ڈیوٹی اور پہرہ   جذبہ کے ساتھ دینا ہر کسی پر فرض ہے۔

{وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ} [التوبة: 92]

اور نہ ان لوگوں پر (کوئی الزام ہے) جو تیرے پاس اس وقت آئے جب جنگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس لئے کہ تو ان کو کوئی سواری مہیا کر دے۔ تو تو نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر تمہیں سوار کراؤں اور (یہ جواب سن کر) وہ چلے گئے اور (اس) غم سے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ افسوس ان کے پاس کچھ نہیں جسے (خدا کی راہ میں) خرچ کریں۔
        یعنی صحابہ کا اس قدر اعلیٰ نمونہ تھا کہ قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے والے زیادہ تھے مگر بعض اوقات سواریاں یا وسائل کم ہونے کی وجہ سے غمزدہ ہوجاتے۔
لیکن  پکڑ ان پر ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے سستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ} [التوبة: 93]

الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو اس حالت میں اجازت مانگتے ہیں کہ وہ مال دار ہوتے ہیں۔ وہ پیچھے بیٹھ رہنے والے قبائل کے ساتھ (بیٹھ رہنے پر) راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کر دی۔ مگر وہ (ایسے ہیں کہ ) سمجھتے ہی نہیں۔


احادیث میں پہرہ اور ڈیوٹی کا ذکر:


رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو ڈیوٹی کیلئے پیش کریں:
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ ہجرت مدینہ کے بعد جبکہ ہر وقت مشرکین مکہ کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، حضور ایک رات بالکل سونہ پائے۔ تو دوسری رات حضور نے فرمایا کیا ہی اچھا ہو اگر  میرے ساتھیوں میں سے کوئی نیک شخص آج رات میرا پہرہ دے۔ اتنے میں ہم نے ہتھیار کی آواز سنی۔ آپؐ نے پوچھا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: سعد بن ابی وقاص ہوں۔ میں آپؐ کا پہرہ دینے کیلئے آیا ہوں۔ اس پر نبی ﷺاطمینان سےسو گئے۔                                   
                                   (بخاری بَابُ الحِرَاسَةِ فِي الغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ)
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے بزرگان و عہدیداران کی حفاظت کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
پھر احادیث میں پہرہ دینےکی فضیلت  کا بھی ذکر ملتا ہے:
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا : "دو آنکھوں کو (جہنم کی) آگ نہیں چھوئے گی۔ پہلی وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے آنسو بہائے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔
                                         (جامع الترمذی بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الحَرَسِ فِي سَبِيلِ اللَّه)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں لیلۃ القدر سے افضل رات کے بار ے نہ بتاؤں؟ ایسا پہرہ دار جو پر خطر مقام پر پہرہ دے اور جانتا ہو کہ شاید وہ کبھی اپنے گھر والوں سے دوبارہ نہ مل سکے گا۔ 
                                        (مستدرک امام حاکم كِتَابُ الْجِهَادِ)
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ امر زیادہ محبوب ہے کہ میں خطرے کے وقت اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے ہوئے رات بھر جاگوں بنسبت اس کے کہ میں ۱۰۰ اونٹ صدقہ کروں۔           
                                        (الجھاد از ابن مبارک ؒ  المتوفی 181 ھ)
موسم کی شدت پہرہ  اور ڈیوٹی میں حائل نہ ہواور پہرہ  دینے والوں اور ڈیوٹیز کرنے والوں کے شامل حال  امام وقت کی خاص دعائیں ہوتی  ہیں:
حضرت ابو ریحانہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک رات ایک بلند ٹیلہ پر گزاری اس رات موسم شدید سرد تھا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے بعض ساتھی سردی سے بچنے کے لیے زمین میں میں گڑھا کھود کر اس میں داخل ہوئے اور اوپر ڈھال رکھ لی۔ حضور ﷺ نے جب یہ صورتحال دیکھی تو فرمایا آج رات جو پہرہ دیگا میں اس کے لیے دعا کروں گا کہ اللہ اس پر فضل فرمائے۔ تو انصار میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میں ۔آپؐ نے فرمایا قریب آؤ۔ وہ قریب آئے تو پوچھا تمہارا نام کیا ہے اس نے اپنا نام بتایا حضور ؐ نے اس کے حق میں لمبی دعا کی۔ ابو ریحانہ کہتے ہیں کہ جب میں نے وہ دعا سنی جو حضورؐ نے اس کیلئے کی تو میں نے عرض کیا حضور میں بھی خود کو ڈیوٹی کیلئے پیش کرتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا قریب آؤ۔ میں قریب ہوا تو فرمایا تمہارا نام کیا ہے میں نے بتایا ابو ریحانہ۔ تو حضورؐ نے میرے لئے دعا کی جو انصاری صحابی کیلئے کی گئی دعا سے مختلف تھی۔ پھر حضورؐ نے فرمایا: آگ اس آنکھ پر حرام کر دی گئی ہے جو اللہ کے خوف سے روئی اور اس آنکھ پر بھی حرام کر دی گئی ہے جو اللہ کی راہ میں رات بھر جاگی۔                                                (سنن أبي داود كتاب الجهاد بَابٌ فِي فَضْلِ الْحَرْسِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى)
پھر اسی بارہ میں ایک واقعہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم-اے بیان فرماتے ہیں۔
"(غزوہ خندق میں کفار) خود بخود میدان جنگ سے بھاگ رہے تھے آنحضرت ﷺ نے اپنے ارد گرد کے صحابہ کو مخاطب فرما کر آواز دی کہ تم میں سے کوئی ہے جو اس وقت جائے اور لشکرِ کفار کا حال معلوم کرے۔ لیکن صحابہ روایت کرتے ہیں کہ اس وقت سردی کی اس قدر شدت تھی اور پھر خوف اور تھکان اور بھوک کا یہ عالم تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے اندر یہ طاقت نہیں پاتا تھا کہ جواب میں کچھ عرض کر سکے یا اپنی جگہ سے حرکت کرے۔ آخر آنحضرت ﷺ نے خود نام لے کر حذیفہ بن یمان کو بلایا۔ جس پر وہ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اٹھے اور آنحضرت ﷺ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ آپ نے کمال شفقت سے ان کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور ان کیلئے دعائے خیر فرمائی اور فرمایا تم بالکل ڈرو نہیں اور اطمینان رکھو ان شاء اللہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ بس تم چپکے چپکے کفار کے کیمپ میں چلے جاؤ اور کسی سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرو۔ اور نہ اپنے آپ کو ظاہر ہونے دو۔ حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ جب میں روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن میں سردی کا نام و نشان تک نہیں تھا بلکہ میں نے یوں محسوس کیا کہ گو یا ایک گرم حمام میں سے گزر رہا ہوں۔ اور میری گھبراہٹ بالکل جاتی رہی۔ اس وقت رات کی تاریکی پورے طور پر اپنی حکومت جمائے ہوئے تھی۔ میں بالکل نڈر ہوکر مگر چپکے چپکے کفار کے اندر پہنچ گیا۔۔۔۔۔اس کے بعد میں واپس چلا آیا۔جب میں اپنے کیمپ میں پہنچا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نماز پڑھ رہے تھے میں نے آپ کے فارغ ہونے تک انتظار کیا اور پھر آپ کو سارے واقعہ کی اطلاع دی جس پر آپ نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اور فرمایا کہ یہ ہماری کسی کوشش یا طاقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے اپنے دم سے احزاب کو پسپا کردیا۔ اس کے بعد کفار کے فرار ہونے کی خبر فوراً سارے مسلمان کیمپ میں مشہور ہوگئی۔ غالباً اسی موقعہ پر آپ نے یہ بھی فرمایاکہ "الاٰن نغزوھم ولا یغزوننا" یعنی آئندہ ہم قریش کے خلاف نکلیں گے مگر انہیں ہمارے خلاف نکلنے کی ہمت نہیں ہوگی۔
(سیرت خاتم النبیین صفحہ594 ، 595  حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم-اے)
اس واقعہ سےجہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حکم مان لینے میں ہی برکت ہوتی ہے اور یہ سمعنا و اطعنا کی اعلیٰ مثال ہے۔دوسری طرف آج ہماری حالت بھی غزوہ احزاب جیسی ہے، بظاہر دشمن طاقتور اور قوی ہے مگر خدا کا فضل ہمارے شامل حال ہے۔


پہرہ/ ڈیوٹی کے متعلق عمومی ارشادات اور واقعات:


حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
"و عز اسمہ فرماتا ہے کہ واعدو لھم مااستطعتم من قوۃ ۔ یعنی دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی تیاری جو کر سکتے ہو کرو۔ اور اعلاءِ کلمۃ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ۔ اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبریں خدمتِ اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجا لاؤ۔ اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی۔ اپنے احسن انتظام کی، اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو تا تم فتح پاؤ۔"                                         (مجموعہ اشتہارا جلد اول ص ۲۹۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
"مومن کا فرض ہے کہ ہوشیار رہے۔ اور اس میں رسول کریم ﷺ کی مثال ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ ایک دفعہ مدینہ کے باہر شور ہوا تو آپ معا گھر سے نکلے اور کسی صحابی کا گھوڑا لے کر جو ایسی جگہ بندھا تھا جہاں بآسانی پہنچ سکتے تھے، اکیلے ہی اس شور کی وجہ معلوم کرنے کیلئے چلے گئے۔ ان دنوں خبر مشہور تھی کہ وہ عیسائی قبائل جو قیصر کے ماتحت تھے مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ شور سن کر اکٹھے ہوئے، بعض مسجد نبویؐ میں جمع ہوگئے اور بعض نے ادھر ادھر باتیں کرنا شروع کردیں اور سب اس انتظار میں تھے کہ رسول کریم ﷺ جس طرح ارشاد فرمائیں کیا جائے۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سوار باہر سے آرہا ہے اور پاس آنے پر معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں شور سن کر دیکھنے گیا تھا کہ کیا بات ہے مگر کوئی بات نہیں ہے، اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ ہوشیاری اور احتیاط میں دوسروں سے کس قدر بڑھے ہوئے تھے حالانکہ آپ سے زیادہ بہادر اور کوئی نہیں ہوسکتا…. پھر ان لوگوں کی تعریف کی جو (بیت) میں جمع ہوگئے تھے اور فرمایا کہ ایسے مواقع پر جمع ہوجانا بہتر ہوتا ہے………مومن کو ہمیشہ ہوشیار و چوکس رہنا چاہیئے مگر ہوشیاری اور چیز ہے اور اضطراب اور۔ ہوشیاری سے مراد یہ ہے کہ ہم خبردار رہیں کہ دشمن کیا کرتا ہے لیکن اضطراب کے معنے یہ ہیں کہ ہم سمجھ نہیں سکتے کیا کرنا چاہیئے۔ بیداری اس لئے ہوتی ہے کہ دیکھا جائے دشمن کیا کرتا ہے یا کیا کرنا چاہتا ہے۔ پھر عقل سے اس کا مقابلہ کرنا ہے، اسکے شر سے بچنے کیلئے مناسب طریق اختیار کرنا ہے۔"  
                                                (خطبات محمود جلد ۱۵ ص ۲۶۷- ۲۶۸)
اس واقعہ سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ بوقت ضرورت فوراً تدبیر کی جائے اور قوم کا سردار یا نگران خود بھی مثالی ہو۔
آپ نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
"ایک دفعہ مکہ کے قریب دشمن نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ حضرت رسول کریم ﷺ مدینہ میں ایک خیمہ میں بیٹھے تھے کہ کھٹ کھٹ کی آواز آئی۔ آپ نے دریافت فرمایا کون ہے؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ میں فلاں شخص ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ تو اس نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نے خیال کیا کہ مکہ والوں نے مسلمانوں سے لڑائی شروع کر دی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کفار مدینہ پر بھی حملہ کر دیں۔ میں یہاں حاضر ہوا ہوں تا آپﷺ کی خدمت میں درخواست کروں کہ مدینہ کی حفاظت کیلئے میری قوم حاضر ہے۔ اب دیکھو مکہ میں لڑائی ہو رہی ہے لیکن صحابہؓ مدینہ میں پہرہ کا انتظام کرنے لگ جاتے ہیں۔"                                                                                                                                            (خطابات شورٰی جلد سوم ص ۵۶۲)
یعنی ملکی اور علاقائی صورتحال کے پیش نظر بھی اپنے علاقہ کے لیے پہرہ کا انتظام کرنا چاہیے۔
نیزصحابہ کرام کے چاق و چوبند رہنے کے بارہ میں فرماتے ہیں:
"صحابہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ رات دن جاگتے تھے باوجود اس کے کہ وہ سوتے بھی تھے مگر ان کی نیند بھی جاگنے کے ہی برابر معلوم ہوتی ہے۔ ہر صحابی کی خواہ وہ کہیں جارہا ہو اور خواہ کچھ کر رہا ہو آنکھیں کھلی رہتی تھیں، کان کھڑے رہتے تھے، دل ہوشیار رہتا تھا اور حس تیز ہوتی تھی ……… وہ ایسے بیدار لوگ تھے کہ رسول کریم ﷺ کا صیغہ خبر رسانی ان کی بیداری کی وجہ سے غیر معمولی طور پر مکمل نظر آتا ہے۔ باوجودیکہ آپؐ نے کوئی جاسوس نہ رکھے ہوتے تھے مگر منافق کہتے تھے  ھو اذن۔ وہ تو کان ہی کان ہے معلوم نہیں اتنی خبریں کہاں سے اسے پہنچ جاتی ہیں گویا وہ مجسم کان ہے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جس قوم کے افراد ہوشیار اور ذکی ہوں اس کے سردار کو کان بننا پڑے گا۔ جب ماتحت آنکھیں کھلی رکھیں تو سردار کو کان بننا پڑتا ہے۔"

(خطبات محمود جلد ۱۳ص ۱۳۶)

پھرآپ ؓپیشتر تیاری اورمعلومات اکھٹی کرنےکے بارہ میں ہی فرماتے ہیں:
"دشمن کے مقابلہ کیلئے پیشتر سے تیار رہنا چاہیئے۔ جو شخص یہ انتظار کرتا ہے کہ دشمن جب گھر پر حملہ کرے گا تو اس کا مقابلہ کرلوں گا وہ بیوقوف ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دشمن کیا ارادے کررہا ہے تو مقابلہ آسان ہوجاتا ہے۔ پس ہمارے احباب کا یہ بھی کام ہونا چاہیئے کہ اپنے مذہبی اور سیاسی مخالفین کی خبر رکھیں کہ وہ ہمارے یا اسلام کے یا ملک کے امن و امان کے خلاف کیا مشورے کرتے ہیں کیا ارادے رکھتے ہیں اورانکی کیا رائے ہے اور پھر یہ معلومات مجھ تک یا سلسلہ کے ذمہ دار کارکنوں تک پہنچائیں۔ "                                                                                                                                          (خطبات محمود جلد ۱۳ ص ۱۳۷)
یعنی ہر خدام اور ماتحت کام کرنے والے کا فرض ہے کہ اپنے علاقہ کی ہر خبر خواہ چھوٹی ہو یا بڑی فوراً اپنے نگران یا دفتر تک پہنچائے۔
پھر آپ اپنے پہ ہونے والے حملہ کےبارہ میں فرماتے ہیں:
"حضرت نوح علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ نے نعمتیں دیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہیں چیزیں بھی دوں گا اور پھر ان کی حفاظت بھی کروں گا۔ حفاظت تمہیں خود کرنی ہوگی۔ اگر تم نے سستی اور غفلت سے کام لیا تو میں نے تمہارا ہاتھ نہیں بٹانا۔ ہاں اگر تم کام کرو گے اور پوری محنت سے کرو گے اور اس کے بعد بھی کوئی کسر رہ جائے گی تو اس کو میں پورا کروں گا۔ …. مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو بعض دوستوں نے لکھنا شروع کر دیا کہ خلیفہ وقت کو نماز کیلئے (بیت) میں نہیں آنا چاہیئے۔ اسی طرح ملاقات کا سلسلہ بھی بند کردینا چاہیئے۔ میں نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خلیفہ وقت کو کسی منارہ پر باندھ دیا جائے اور جماعت اپنا فرض ادا نہ کرے۔ جب تک خلافت رہے گی خلیفہ(بیت) میں نماز پڑھانے ضرور جائے گا، وہ ملاقات کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا، چاہے دشمن اس پر حملہ کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح وہ اپنے فرائض بھی بجا لائے گا آگے جماعت کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ وہاں کوئی مشکوک آدمی تو موجود نہیں۔" 
                                                 (خطاباتِ شورٰی جلد سوم ص ۵۵۴- ۵۵۵)
مزید فرمایا:
"چوہدری عبد اللہ خان صاحب نے مجھے بتایا کہ محراب کے سامنے جو لوگ بیٹھے تھے میں نے جب ان سے بعض باتیں دریافت کیں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ شخص مشکوک حالت میں تھا۔ وہ کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور اس کا منہ کمبل سے ڈھکا ہوا تھا۔ جب وہ سجدہ میں گیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی چیز اس کی جیب سے گر رہی ہے لیکن اس شخص کو یہ احساس نہ ہوا کہ اسے احتیاطی تدبیر کرنی چاہیئے۔ اس نے یہ خیال کیا کہ یہ صدر انجمن احمدیہ کا کام ہے مجھے اس کے کام میں دخل نہیں دینا چاہیئے۔ قادیان میں ایک دفعہ اسی قسم کا واقعہ ہوا۔ میں دار الحمد میں تھا کہ میرے ایک لڑکے نے مجھے اطلاع دی کہ ایک نوجوان آیا ہے اور وہ آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے میں باہر آیا لیکن ابھی رستہ میں ہی تھا کہ باہر شور پڑ گیا۔ باہر آکر دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ کوئی نوجوان تھا۔ اس کے پاس چھرا تھا اور وہ حملہ کی نیت سے یہاں آیا تھا۔ اب اسے پکڑ لیا گیا ہے مجھے عبد الاحد خان پٹھان نے بتایا کہ یہ نوجوان بچوں کے پاس کھڑا تھا اور ان سے کہہ رہا تھا کہ میں مرزا صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ بات کرتے وقت اس نے اپنی ٹانگ کو حرکت دی اور یہ حرکت اس قسم کی تھی کہ جیسے پٹھان اس وقت کیا کرتے ہیں جب انہوں نے چھرا چھپایا ہوا ہو۔ میں نے اسے اس قسم کی حرکت کرتے دیکھا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور ٹٹولنے پر واقع میں اندر سے چھرا نکل آیا۔ لیکن یہاں وہ نوجوان آتا ہے (بیت) میں آکر بیٹھتا ہے، اس کی ظاہری حالت اسے مشکوک بتاتی ہے پھر جب نماز پڑھتا ہے تو اس کی جیب میں سے چاقو نیچے گر جاتا ہے اور وہ اسے اٹھا کر جیب میں دوبارہ ڈال لیتا ہے لیکن اسے کسی نے پکڑا نہیں۔ "                                                                                                                                          (خطابات شورٰی جلد سوم ص ۵۶۱-۵۶۲)
یعنی خلیفہ وقت، خلافت اور خلافت کے مرکز کی حفاظت کی ذمہ داری جماعت کے احباب پر عائد ہوتی ہےاور ان میں سے بھی ان پر جو ڈیوٹی اور پہرہ دیتے ہیں کیونکہ ان پہرہ جات کا مقصد ہی حفاظت کرنا ہے۔
نیز فرمایا:
"ماحول اور حال کو مدنظر رکھنا چاہیئے دشمنوں کی طرف سے چوکس رہو اور ساتھ ہی اپنا ایمان بھی مضبوط رکھو کہ تمہارا خدا تمہارے چاروں طرف ہے۔ "                                                                                                        (خطبات محمود جلد ۱۳ ص ۲۷۷)

پھر ڈیوٹی کے حوالہ سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کبھی اپنی ڈیوٹی کی جگہ نہ چھوڑی جائے اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ ۳۶۳-۳۶۴  میں فرماتے ہیں:
"پرانے زمانہ میں تمام بڑے بڑے بادشاہوں کا یہ دستور تھا کہ وہ خاص خاص مقاموں پر لڑنے کیلئے اور اپنے باڈی گارڈز کے طور پر اعلیٰ قبیلوں کے آدمیوں کو بھرتی کیا کرتے تھے........ نپولین کے محافظ دستہ کا ایک عجیب واقعہ مشہور ہے کہ جب واٹرلو کے میدان میں نپولین کی فوج کو شکست ہوئی تو اس کا محافظ دستہ میدان سے نہیں ہلا۔ لارڈ ولنگٹن کی فوج گولے پر گولے برسا رہی تھی اور وہ مرتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے اس وقت نپولین کی فوج کا ایک جرنیل جو ایک خاص کام پر بھیجا گیا تھا واپس آیا اور اس نے جنرل کو جو اس خاص دستہ کا افسر تھا جاکر کہا کہ ہمارا گولہ بارود ختم ہوچکا ہے اور دشمن بڑھتا چلا آرہا ہے تم یہاں کیوں کھڑے ہو۔ پیچھے ہٹو تاکہ کسی طرح بادشاہ کی جان بچائی جاسکے اور پھر جمع ہوکر دشمن پر حملہ کریں اس پر جنرل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ اور نہایت سادگی سے کہا: "مگر میں کیا کروں مجھے نپولین نے پیچھے ہٹنا نہیں سکھایا۔"
یہ معیار ہے ایک دنیاوی فوجی اور محافظ کا تو کیا ہم سب کا یہ فرض نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی کی جگہ کو تب تک نہ چھوڑیں جب تک نگران خود واپس نہ بلا لے۔
ڈیوٹی کے مقام کو نہ  چھوڑنے میں یہی حکمت ہے کہ نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۷۶- ۷۷میں فرماتے ہیں:
"اس جنگ (یعنی غزوہ احد) میں ایک درہ ایسا تھا جہاں رسولِ کریم ﷺ نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا۔ جب کفار کا لشکر منتشر ہوگیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں۔ ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم ﷺ کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہوجائے تب بھی یہیں کھڑے رہو۔ آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درہ کو نہ چھوڑنا۔ اب چونکہ فتح ہوچکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہیئے۔ چنانچہ وہ درہ خالی ہوگیا۔ حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقا پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درہ کو خالی پایا یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کیلئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہوگئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کرسکے۔ میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا

پھر پہرہ کے مختلف اوقات اور انکی اہمیت کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۳۹۴میں فرماتے ہیں:
"میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس آیت(سورۃ النور-آیت 59)کے مضمون کو محض گھریلو مضمون نہ سمجھا جاتا بلکہ یہ سمجھا جاتا کہ یہ آیت چونکہ خلافت کے ذکر کے بعد آئی ہے اس لئے اس میں کوئی قومی مضمون بیان ہوا ہے تو مسلمان اپنی کمزوری کے وقتوں میں اور زیادہ ہوشیار ہوجاتے۔ جیسا کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے آخری ایام میں۔ اور کسی غیر کو خواہ وہ کتنا ہی بے ضرر نظر آتا اپنے نظام کے پاس تک نہ پھٹکنے دیتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو نہ حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوتی اور نہ حضرت علیؓ کی۔ حضرت علیؓ کی شہادت صبح کی نماز کے وقت ہوئی تھی۔ اگر مسلمان اس آیت کے مضمون کے مطابق حضرت علیؓ کے گھر کا اس وقت پہرہ دے رہے ہوتے تو ایک فاسق خارجی کی کیا مجال تھی کہ آپ پر حملہ کرتا۔ اس نے  من قبل صلوٰۃ الفجر کا وقت شاید اسی آیت سے نکالا ہو اور سمجھا ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس وقت کو ننگا ہونے کا وقت قرار دیا ہے یعنی جب آدمی حفاظت سے محروم ہوتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ اسی وقت حملہ کرو۔ اسی طرح دوپہر کا وقت حفاظتی نقطۂ نگاہ سے بڑی بھاری اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جبکہ بالعموم لوگ غافل ہوجاتے ہیں اور حملہ آور ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے ہیں جبکہ لوگ غفلت کی نیند سو رہے ہوں۔ صحابہؓ سے ایک دفعہ دوپہر کے وقت اسی قسم کی غلطی ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حملہ آور تلوار لیکر رسول کریم ﷺ کے سر پر کھڑا ہوگیا۔ اور اس نے چاہا کہ آپ کو قتل کر دے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہوا اور اس نے دشمن کو اپنے بد ارادہ میں ناکام کردیا۔ یہ واقعہ غزوۂ ذات الرقاع سے واپسی کے وقت پیش آیا۔"
ان واقعات سے صاف واضح ہے کہ رات اور دوپہر کا پہرہ یعنی ایسے وقت کا پہرہ جب بالعموم غفلت چھائی ہو، زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سیکیورٹی کی ڈیوٹیزاور ڈیوٹیز دینے والے خدام کے بارہ میں فرماتے ہیں۔
سیکورٹی کاخاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اعصاب کو قابو میں رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اس کے بغیر سیکیورٹی ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی۔پس خدام الاحمدیہ ۔۔۔سارا سال یہ سروے کرے کہ سارے ملک میں سے کون سے ایسے لڑکے ہیں جو مضبوط اعصاب والے بھی ہیں اور ہوش حواس قائم رکھنے والے ہیں تاکہ اگر ہنگامی صورت ہو اس میں کام بھی آسکیں اور آیندہ سال ایسے لوگوں کو لیا جائے۔  
                                                            (خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 6 ستمبر 2013)
ہمارا اصل ہتھیارتو دعائیں ، صدقات اور نوافل ہی ہیں۔اس بارہ میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
"پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنی نمازیں سنواریں۔ فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں۔ کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور زبانیں تر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں۔ ان شاء اللہ۔"
                                                (خطبات مسرور جلد ششم ص ۶۴)
پھر آپ ڈیوٹیز کے حوالہ سے ہی فرماتے ہیں:
"سب سے بڑھ کر یہ بات یاد رکھیں، جیسا کہ میں نے شروع میں ہی کہہ دیا ہے کہ ہمارا اصل انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اس لئے کوئی بھی لمحہ دعاؤں سے خالی نہ جانے دیں۔ ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں۔"
                                                            (خطبات مسرور جلد ہشتم ص ۳۸۶)

(Published On 24 March 2014 In Alfazl Rabwah)

Wednesday, 12 March 2014

سمندری طوفان اور انکا تعارف

سمندری طوفان اور انکا تعارف

طوفان کب اور کیوں آتے ہیں:۔

خواہ دنیا کا شمالی کرہ ہو یا جنوبی ہر جگہ گرمیوں کے آتے ہی تیز ہواؤں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اور یہ تیز ہوائیں زیادہ شدت اختیار کر کے طوفان کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں۔ان تیز ہواؤں کے چلنے اور طوفانوں کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس مخصوص علاقہ میں گرمی پڑتی ہے اور جب اس علاقہ میں ہوا کا دباؤ کم ہوجاتا ہے تو اردگرد کی ہوائیں اس خلا کو پر کرتی ہیں اور ان ہی ہواؤں کا آنا ہمیں تیز آندھیوں کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح اکثر اوقات گرمی کی وجہ سمندر میں آبی بخارات بننے کا سلسلہ بھی تیز ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ طوفان بارشوں کی صورت میں بھی آتے ہیں جیساکہ آج کل امریکہ میں بھی سینڈی (Sandy)طوفان آیا ہو۔
یہ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کی بناء پر طوفان آتے ہیں۔ ان کی عام مثال ہر سال گرمیوں میں پاکستان کے علاقہ سندھ میں آنے والا بارشوں کا طوفان ہے، گو کہ پاکستان کو صرف ایک موسم میں ہی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر امریکہ جیسے بڑے ملک کو جو دنیا کے سب سے بڑے سمندروں یعنی بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کے درمیان واقع ہے مختلف اوقات میں کئی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مغربی بحرالکاہل میں میں تو سارا سال طوفانوں کا سلسلہ تھمتا ہی نہیں۔

ہر اٹھنے والا سمندری طوفان ساحل تک نہیں پہنچتا:۔

اکثر سمندری طوفان تو سمندر میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ان کی شدت اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ ساحل تک پہنچیں اور کسی قسم کی تباہی کا موجب ہوں۔
یہاں پر ہم صرف براعظم امریکہ ہی کی بات کر لیتے ہیں۔ ہر سال بحر اوقیانوس، خلیج میکسیکو اور کیریبین سمندر (Caribbean Sea) میں 100سے زائد آندھیاں چلتی ہیں جن میں سے 10 طوفانی ہواؤں کی صورت اختیار کرتی ہیں اور ان 10میں سے صرف 6 سمندری طوفان کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ اور ہر سال ان 6طوفانوں میں سے اوسطاً 2 طوفان امریکہ سے ٹکراتے ہیں جس کی وجہ سے 100کے قریب ہلاکتیں ہوتی ہیں اور کئی ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ان طوفانوں سے نمٹنے کے لیے اور لوگوں کو قبل از وقت اطلاع دینے کے لیے امریکہ میں ایک ادارہ قائم ہے۔ اس ادارہ کا نامNational Oceanic And Atmospheric Administration یعنی ’’قومی سمندری اور ماحولیاتی ادارہ ‘‘ ہے۔جو عرف عام میں NOAA سے جانا جاتا ہے۔

سمندری طوفانوں کی درجہ بندی کا پیمانہ:۔

1971میں سمندری طوفانوں کے شدت کو جانچنے اور ان کی شدت کے مطابق درجہ بندی کے لیے پیمانہ متعارف کروایا گیا جو کہ Saffir-Simpson Hurricane Scale کے نام سے مشہور ہے۔کسی بھی طوفان کی درجہ بندی یا شدت کا اندازہ اس کے تدریجا اضافے، ہوا کے دباؤ اور رفتار کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے سینڈی (Sandy) طوفان کی مثال ہی لے لیں۔ گو کہ ہوا کی تیز رفتاری کے لحاظ سے یہ Category 1 کا طوفان ہے لیکن ہوا کے دباؤ اور تدریجا اضافے کی وجہ سے اسے Category 3کا طوفان قرار دیا گیا ہے۔


طوفانوں کی درجہ بندی:۔

اس پیمانہ کے تحت مختلف طوفانوں کو ان کی شدت کے اعتبار سے عام طور پر 5درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان پانچ درجوں کی مختصر تفصیل یہ ہے:۔
درجہ اول (Category 1):۔ اس میں وہ طوفان شامل ہوتے ہیں جن میں ہوا 35سے 74میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے۔
درجہ دوم (Category 2):۔اس میں شامل طوفانوں کی ہواؤں کی رفتار 96سے110میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔
درجہ سوم (Category 3):۔اس درجہ میں شامل طوفانوں کی ہواؤں کی رفتار 111سے 130میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔
درجہ چہارم (Category 4):۔ان میں ہواؤں کی رفتار 131سے 155میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے۔
درجہ پنجم (Category 5):۔ان میں ہواؤں کی رفتار 155میل فی گھنٹہ سے زیادہ ہوجاتی ہے۔
جیسا کہ ہواؤں کی رفتار سے واضح ہے کہ Category 1کے طوفان سب سے کم شدت کے ہوتے ہیں اور Category 5 کے طوفان سب سے شدید طوفان شمار کیے جاتے ہیں۔

طوفانوں کے مختلف نام:۔

یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان طوفانوں کے یہ مختلف نام کون رکھتا ہے اور کیسے رکھے جاتے ہیں اور طوفانوں کو انسانی نام دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
عالمی موسمیاتی ادارہ (World meteorological organization)مختلف ناموں پر مشتمل ایک فہرست تیار کرتا ہے اور اس فہرست میں سے ہر علاقائی موسمیاتی تنظیم انتخاب کرتی ہے اور ان کا استعمال کرتی ہے۔ مثلاً امریکہ کے قومی ادارہ کو ہی لے لیں۔ کیونکہ امریکہ کا شمار بحر اوقیانوس میں ہوتا ہے اس حساب سے Atlantic کو 6فہرستیں دی جاتی ہیں (6سالوں کے لیے) ہر فہرست 21ناموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثلاً Sandy, Katrina, Ironوغیرہ۔
ہر فہرست میں انگریزی حروف تہجی A,B,C سے شروع ہونے والا ایک ایک نام ہوتا ہے۔ یعنی ہر فہرست کا پہلا نام Aسے دوسرا Bسے تیسراC اور اسی طرح آخر تک۔ مگر Z,Y,X,U,Q سے کوئی نام شامل نہیں کیا جاتا اس لیے ہر فہرست میں شامل ناموں کی تعداد 21ہوتی ہے۔
ہر فہرست 6سال کے دورانیہ کے بعد دوبارہ استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً امسال 2012ء میں استعمال ہونے والی فہرست اب دوبارہ 2018ء میں استعمال کی جاسکے گی۔اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر کسی طوفان کی تباہ کاریاں شدید ہوں تو وہ نام متروک ہوجاتا ہے اور دوبارہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اب سینڈی (Sandy)نام 2018ء کی لسٹ میں شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ ’’S‘‘ سے شروع ہونے والا کوئی اور نام اس فہرست میں شامل کردیا جائے گااور باقی فہرست جوں کی توں رہے گی۔

آئندہ چند سالوں میں استعمال ہونے والے ناموں کی فہرست درج ذیل ہے:۔

سال2013
سال2014
سال 2015
Ana
Arthur
Andrea
Bill
Bertha
Barry
Claudette
Cristobal
Chantal
Danny
Dolly
Dorian
Erika
Edouard
Erin
Fred
Fay
Fernand
Grace
Gonzalo
Gabrielle
Henri
Hanna
Humberto
Ida
Isaias
Ingrid
Joaquin
Josephine
Jerry
Kate
Kyle
Karen
Larry
Laura
Lorenzo
Mindy
Marco
Melissa
Nicholas
Nana
Nestor
Odette
Omar
Olga

مقررہ قواعد و ضوابط کے تحت ہر علاقہ یا ملک اپنے لیے مختلف اسماء چنتاہے۔ بعض ممالک مثلاً مغربی بحراوقیانوس کے قریب واقعہ ممالک میں ان طوفانوں کے نام مختلف جانوروں، پھولوں اور اجرام فلکی کی نسبت سے رکھے ہوئے ہیں۔
WMO
ان ناموں کو بناتے ہوئے چند باتوں کا خصوصی خیال رکھتاہے۔ 
 ہر فہرست کا پہلانام اپنے اگلے نام سے جنس میں مختلف ہوگا۔ جیسے 2013ء میں استعمال ہونے والی فہرست کا پہلا نام Andreaمونث نام ہے اسی لحاظ سے اگلا نام Bسے شروع ہورہاہے یعنی Barryوہ مذکر نام ہے۔اسی طرح یہ ترتیب جاری رہتی ہے۔

جیسے ایک فہرست کے اندر ناموں کے جنس کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح فہرستوں کے مابین بھی رکھا جاتا ہے۔ یعنی اگر2013ء کی فہرست کا آغاز مونث نام سے ہوا ہے تو 2014ء کی فہرست کا آغاز کسی مذکر نام سے ہوگااور اس کاBسے شروع ہونے والا نام مونث ہوگا۔اسی طرح اس فہرست میں یہ عمل جاری رہے گا۔

پھر اگر ایک سال میں 21سے زائد طوفانوں کی نشاندہی ہوجائے اور مقررہ فہرست ختم ہوجائے تو یونانی حروف تہجی یعنی Alpha, Beta, Delta, Gamaکو بطور ناموں کے استعمال کرلیا جاتا ہے۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک طوفان ایک سمندر سے نکل کر دوسرے سمندر کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے یوں اس طوفان کو دو ناموں سے پکارا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں نام اپنی علاقائی حدود کے اعتبار سے ٹھیک ہوں گے۔

متروک اسماء:۔

جیساکہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ بعض طوفانوں کے اسماء انکی شدت تباہی کی وجہ سے فہرست سے خارج کردیے جاتے ہیں۔ مثلاً 2005ء میں آنے والے دو شدید طوفان Ritaاور Katrinaکو فہرست سے خارج کردیا گیا اور 2011ء یعنی گزشتہ سال جب یہ فہرست دوبارہ ستعمال میں آئی تو ’’K‘‘اور ’’R‘‘ سے شروع ہونے والے نئے ناموں کو فہرست میں داخل کردیا گیا۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ متروک نام دس سال بعد دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے پر اس سے پہلے نہیں۔

چند متروک اسماء اور جس سال متروک ہوئے کی فہرست درج ذیل ہے:۔

1990ء
1991ء
1992ء
2000ء
2005ء
2007ء
2010ء
2011ء
Diana
Bob
Andrew
Keith
Dennis
Dean
Igor
Irene
Klaus



Katrina
Felix
Tomas


طوفانوں کی وجہ تسمیہ اور پس منظر:۔

ان طوفانوں کو نام دینے کی ضرورت تب پیش آئی جب ایک وقت میں ایک سے زائد طوفان آئے۔ تو ان کی پہچان کرنے کے ، مختلف معلومات کو جمع کرنے اور فراہم کرنے کے لیے ان طوفانوں کو مختلف ناموں سے پکارا جانے لگا۔ 


تاریخ:

گو کے منظم طور پر طوفانوں کے نام تو گزشتہ صدی میں رکھے گئے مگرنام رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔کئی صدیوں قبل جب یورپی اقوام امریکہ اور جزائر غرب الہند میں آکر آباد ہوئے تو Catholic Saints کے نام پر ان طوفانوں کے نام رکھے جانے لگے۔بعد میں طول بلد اور عرض بلد کے لحاظ سے طوفان کی پوزیشن پر اسے پکارا جاتا۔ یہ طریق کافی گراں بار اور گفتگو کے دوران بوجھل محسوس ہوتا تھا مگر پھر بھی یہ طریق کافی دیر تک مستعمل رہا۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوجی ماہر موسمیات نے طوفانوں کو مونث نام دینے شروع کردیئے۔
اور اسی کو دیکھتے ہوئے 1950ء میں عالمی ادارہ برائے موسمیات یعنی WMOنے اس طریق کو اپنا لیا اور یوں پہلی بار باقاعدہ طور پر طوفانوں کے لیے انسانی ناموں کا استعمال شروع ہوا۔
1970ء تک صرف مونث ناموں کا استعمال کیا جاتا تھا۔مگر 1970ء میں مذکر ناموں کو بھی فہرستوں میں شامل کیا گیا۔ اور اسی طرح دیگر زبانوں یعنی فرنچ اور سپینش کے نام بھی استعمال میں لائے گئے۔پھر 1979ء میں باقاعدہ طور پر ہر فہرست میں جنس کے لحاظ سے متبادل ناموں کا استعمال شروع کیا گیا۔ جس کی وضاحت پہلے کردی گئی ہے۔

چاہے یہ خدائی عذاب ہوں یا معمول کی بات ۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ سب کو ان آفات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
ہمیں چاہیئے کہ ان حالات میں دعاؤں پر توجہ دیں اور خاص طور پرحضور ﷺ کی یہ دعا ورد زبان بنائیں:


اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَافِیْھَا وَ خَیْرَ مَا اُرْسِلت بِہِ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا فِیْھَاوَ شَرِّ مَا اُرْسِلت بِہِ۔

آمین ثم آمین و آخر دعونا ان الحمد للہ رب العالمین۔

(Published In Alfazl Rabwah Dated 12th Nov 2012 & Alfazl Intl 7 To 13 March 2014)