حوادث طبعی یا
عذاب الہی
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ
تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حالیہ خطبات میں تمام جماعت کو عملی اصلاح کی طرف توجہ دلائی
اور جہاں مختلف ذرائع کا ذکر کیا وہاں ایک ذریعہ یہ بھی بتایا کہ حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کے حق میں ظاہر ہونے والے نشانات ایمانی قوتوں کو بڑھانے کا موجب ہوتے
ہیں۔
چنانچہ حضور ؑ کے نشانات کے ایک حصہ کا تعلق قدرتی آفات یا
طبعی حوادث سے ہے۔ جن میں سے ایک طاعون کا نشان ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ
السلام کے دور میں ہی ظاہر ہوکر آپ کی صداقت کو چار چاند لگا دیئے۔
خاکسار اس قدرتی نشان "طاعون" کے متعلق امام آخر
الزمان کے ایک خلیفہ کے الفاظ اور تحریر کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر تا ہے
تا ہم پر یہ عیاں ہوسکے کہ یہ کس قدر عظیم الشان نشان تھا جو حضورؑ کے حق میں ظاہر
ہوا اور ہم خود اس نشان کو مکمل طور پر سمجھنے کے بعد غیروں کو بھی اس کے ذریعہ
احمدیت کی سچائی اور صداقت باور کروا سکیں۔ وما توفیقی الا باللہ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے سے
قریبا چھ سال قبل ایک مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان "حوادث طبعی یا عذاب
الٰہی" تھا۔ یہ مضمون رسالہ الفرقان میں چار اقساط میں شائع ہوا۔ بعد ازاں
کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔ حضور نے اس مضمون کے پہلے حصہ میں اس امر پر
روشنی ڈالی کہ آیا حوادث طبعی جو ظاہر ہوتے ہیں ان کا تعلق خدا تعالیٰ کے بھیجے
ہوئے مرسلوں کے انکار اور اس کی ناراضگی سے ہوتا ہے یا نہیں۔ اور دوسرے حصہ میں حضرت
اقدس مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے نشان طاعون پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
حضور ؒ کہ اس سوال
کے ضمن میں کہ حوادث طبعی کا تعلق خدا کی ناراضگی سے ہوتا ہے یا نہیں فرماتے ہیں
کہ عام طور پر دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں :
1.
ایک یہ کہ حوادث طبعی قوانین طبعی کے تحت خود بخود ظاہر ہوتے ہیں اور ان کا
اعمال سے کوئی تعلق نہیں۔
2. دوسرا وہ مذہبی گروہ ہے جس کا قدیم سے یہ نظریہ چلا آتا ہے کہ غیر معمولی
نوعیت کے حوادث ہمیشہ قوانین طبعی سے باہر نکل کر قوانین غیر طبعی کے حلقہ میں
داخل ہوجاتے ہیں۔ اور ہر مذہب کسی نہ کسی رنگ میں اس بات پر متفق نظر آتا ہے یہ
حوادث کسی باشعور ہستی کے فیصلہ کے نتیجہ میں عذاب کا رنگ ڈھالتے ہیں۔
آج یہ سوال سائنس کی ترقی کے نتیجہ میں اور بھی اہمیت
اختیار کر گیا ہے کیونکہ آج صرف ظاہری مشاہدہ ہی موجود نہ ہے بلکہ دقیق در دقیق
سائنسی دریافتوں کے نتیجہ میں یہ بات ثابت ہے کہ یہ تمام حوادث قوانین طبعی کا ہی
نتیجہ ہیں۔ لیکن اس کے مقابلہ میں مذہبی دھڑے نے تا حال کوئی تازہ تحقیق پیش نہیں
کی۔
کیونکہ آج جماعت احمدیہ ان حوادث کا تعلق خدا کی ناراضگی
کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتی ہے اس لئے جماعت کی ذمہ داری ہے کہ اس امر کو کھول کر
بیان کرے اور وضاحت سے پیش کرے کیونکہ آج کا ترقی یافتہ انسان محض دعاوی کی تکرار
اور بلند آواز میں بیان کرنے سے ہرگز قبول نہ کرے گا۔
آگے چل کر حضورؒ فرماتے ہیں کہ گو لوگ بعض دفعہ ان مصائب
کو عذاب الٰہی قرار دیتے ہیں مگر عملاً ان حوادث سے عامة الناس کی زندگیوں میں کوئی بنیادی
فرق نہیں پڑتا۔ اور یہ بنیادی اصول بھول جاتے ہیں جو قرآن نے بیان کیا ہے کہ بد
اعمالیوں کے نتیجہ میں عذاب بھی تب تک نہیں آتا جب تک خدا تعالیٰ کوئی تنبیہہ
کرنے والا پیغمبر نہ بھیج دے۔
بعض اوقات غیر احمدی احباب ان آفات کو غیر معمولی عذاب تو
قرار دیتے ہیں مگر اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ خدا کی طرف سے اصلاح
کرنے والا حضرت مرزا غلام احمد ؑ کے روپ میں آچکا ہے۔ اور یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ
آفات تو آغاز دنیا سے چلی آرہی ہیں پھر کیسے یہ کسی پیغمبر کے انکار کی وجہ سے
ہوسکتی ہیں۔
احمدیوں کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ دعوٰی صرف احمدیوں کا
نہیں ہے بلکہ قرآن بڑی تہدی سے اس دعوٰی کو پیش کرتا ہے کہ کسی مرسل کے انکار کے
نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کیا اور صرف وہی باقی رہے
جو ایمان لانے والے تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان حوادث کا خدا کے
انبیاء کے انکار سے نہیں تو پھر کیوں قرآن بار بار حوادث طبعی کو انبیاء کی سچائی
کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
احمدیت کا نظریہ:
جماعت احمدیہ کا مؤقف ان پانچ بنیادی باتوں پر قائم ہے :
1.
احمدی ہرگز اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ دنیا میں رونما ہونے والے ان حوادث
اور مصائب کی طبعی وجوہات موجود نہیں بلکہ یہ بھی قانون طبعی کے تحت ہی رونما ہوتے
ہیں ہمارے نزدیک مذہب کا خدا بھی وہی ہے جو مادی دنیا کا ہے جنہیں ہم قانون طبعی
کہتے ہیں۔
2.
گو کہ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ غیر معمولی حوادث خدا تعالیٰ کی خاص
مشیت کے تحت ہوتے ہیں لیکن ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ ہر قدرتی آفت یا تغیر ہی عذاب
الٰہی ہے۔ بعض دفعہ انسان اپنی کم علمی میں کوئی نظریہ مذہب کی طرف منسوب کردیتا
ہے جس کی وجہ سے مذہب پر اعتراضات پڑتے رہیں۔ اس کی ایک مثال عیسائیت کا ابتدائی
دور ہے۔ چنانچہ احمدیوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیئے کہ کسی ایسے نظریہ کو مذہب
کی طرف منسوب نہ کریں جس کا مذہب دعویدار نہیں۔
مزید فرمایا کہ قرآن و احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے
یہ ہرگز ثابت نہیں کہ ہر طبعی حادثہ یا تغیر ، عذاب کی حیثیت ہی رکھتی ہے۔ ہاں
قرآن سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بسا اوقات مادی طاقتوں کو ایسے لوگوں کو ہلاک
کرنے پر مامور کر دیا گیا جو مادی طاقتوں کے ذریعہ سے ہی کسی خدائی یا روحانی
سلسلہ کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ گویا قرآن کے نظریہ کے مطابق جب بھی مادی
قوتیں روحانی قوتوں کو ختم کرنے کے برسر یکار ہوئیں تو خدا تعالیٰ نے مادی طاقتوں
کے ذریعہ سے ہی انہیں ہلاک کیا۔ حضورؒ نے فرعون کی غرقابی کی مثال دی ہے کہ کیسے
اس کی غرقابی عذاب الٰہی کے ماتحت تھی کیونکہ نیل کے ڈیلٹا میں خدا جانے کتنےجانور
یا انسان ڈوب کر ہلاک ہوئے ہوں گے مگر فرعون کے ڈبونے کو عذاب الٰہی قرار دیا گیا۔
چنانچہ اس سے ثابت ہوا کہ ہر تغیر نہ عذاب الٰہی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ اسلام
اس کا دعویدار ہے۔ حضورؒ فرعون کی مثال کو ہی کھول کر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ غرق ہوتے وقت فرعون نے خدا کو پکارا کہ میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں تو مجھے بچا
لے۔
اس مکالمہ کا کوئی ثبوت بظاہر موجود نہیں کیونکہ ایک مرتے ہوئے شخص اور خدا کے
درمیان ہونے والے مکالمہ کا کس کو پتہ ہوسکتا ہے ۔ ابھی یہ ایک سوال حل نہیں ہوتا
ہے کہ قرآن دوسرا دعوٰی یہ کرتا ہے کہ اس کا غرق ہونا عذاب الٰہی کے تحت تھا۔ اور
اس کی دلیل یہ دیتا ہے کہ فرعون کا آخر وقت میں اس خدا کو پکارنا جس کی طرف اس کو
بلایا جاتا تھا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس امر کو اس خدا کی طرف سے عذاب سمجھ رہا
تھا۔ فرعون نے کہا
"جب اسے
غرقابی نے آلیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر
بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (بھی) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔"
(یونس:91)
فرعون کے اس بیان کے جواب میں خدا کا قول ایک ایسا ناقابل تردید ثبوت ہے جو اس
تمام مکالمہ کی صداقت کو یقین بناتا ہے۔ خدا نے فرمایا:
کیا اب (ایمان لایا ہے)! جبکہ اس سے پہلے تُو نافرمانی سے کام
لیتا رہا اور تُو مفسدوں میں سے تھا۔پس آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات
بخشیں گے تاکہ تُو اپنے بعد آنے والوں کے لئے ایک عبرت بن جائے۔ حال یہ ہے کہ
انسانوں میں سے اکثر یقیناً ہمارے نشانات سے بالکل غافل ہیں۔
(يونس: 92-93)
حضورؒ فرماتے ہیں کہ یہ ایک نہایت لطیف جواب ہے جو محض دعوٰی نہ تھا بلکہ
صداقت کا ثبوت بھی تھا۔ وہ اس طرح کہ آنحضرتﷺ نے قرآن میں اس آیت کی شکل میں
ایک دعوٰی اس وقت پیش کیا جب ہر کسی کو یہ تو معلوم تھا کہ فرعون غرق ہوا تھا مگر
کسی تاریخی یا مذہبی کتاب میں اس بات کا ذکر موجود نہ تھا کہ اس کی لاش کسی جگہ
محفوظ ہے اور آئندہ نسلوں کی عبرت کیلئے دوبارہ منظر عام پر بھی آئے گی۔
آج 1400 سال بعد عیسائی
محققین کا خود اس لاش کو دریافت کر لینا اس تمام مکالمہ اور دعوٰی کا منہ بولتا
ثبوت ہے ۔ پس اس طرح سے یہ عذاب الٰہی قرار پاتا ہے کہ کیسے فرعون کی غرقابی دیگر
ہونے والی غرقابیوں سے مختلف تھی۔
3.
مادی تغیرات اور طبعی قوانین کے نتیجہ میں ہونے والی تبدیلیاں تب عذاب کا نام
پاتی ہیں جب ساتھ کچھ علاماتیں اور شرائط بھی رکھتی ہو۔ ہر تبدیلی کو عذاب قرار
نہیں دیا جاسکتا۔
4.
ایسے حوادث جو عذاب الٰہی کا روپ ڈھالتے ہیں ان کے نتیجہ میں بعض اہم مقاصد
حاصل ہوتے ہیں جو عام حوادث طبعی کے نتیجہ میں نہیں ہوتے۔
5.
قرآن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قوانین طبعی کے نتیجہ میں ہونے والے تغیرات میں سے
ہی کسی تغیر کو عذاب الٰہی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور آئندہ بھی بنایا جاسکتا
ہے۔
مذہبی مقاصد کے حصول کیلیئے طبعی ذرائع کا استعمال:
مادہ پرستوں کا یہ نظریہ ہے کہ حوادث محض طبعی محرکات کا
نتیجہ ہیں جبکہ اسلام اس سے ایک قدم آگے جاتا ہے کہ نہ صرف یہ تغیرات طبعی محرکات
کے تحت ہیں بلکہ بعض اوقات انہی طبعی محرکات کو خدا مذہبی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال
کرتا ہے کیونکہ یہ بھی ایسے ہی مسخر ہیں جیسے انسان بطور تخلیق اس کا مسخر ہے۔
حضورؒ نے اس کی مثال قوم نوح پر آنے والے عذاب سے دی ہے۔
حضورؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات تو اٹل تھی کہ جہاں حضور نوح ؑ آباد تھے وہاں بکثرت
بارش ہونے والی تھی اور نوح ؑ خدا کی طرف پکارتے تھے۔ اس امر سے تو یہ کوئی بخوبی
واقف ہے کہ نوح ؑ کی قوم پر بارش کے ذریعہ عذاب آیا مگر قرآن میں یہ بھی ارشاد
موجود ہے کہ وہی بارش رحمت الٰہی کا باعث بھی بن سکتی تھی۔ چنانچہ یہ بارش رحمت کی
ہو یا عذاب کی فیصلہ قوم نوح پر چھوڑ دیا گیا۔
فرماتا ہے:
پس میں نے کہا اپنے ربّ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے
والا ہے۔وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ
تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے
گا۔ (نوح 11-13)
ان آیات کی روشنی میں واضح ہے کہ وہی بارش رحمت الٰہی بن
سکتی تھی جو اعمال کی وجہ سے عذاب الٰہی بنی۔ اگر رحمت الٰہی بنتی تو ایسے وقفہ
وقفے سے برستی کہ سیلاب کی بجائے نہریں بہتیں پس انکار نے بارش کے اس پانی کو عذاب
کے پانی میں تبدیل کر دیا۔
آخر میں حضور ؒ ایک لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پانی کی خدمات میں اہل بصیرت کیلئے فکر کے
سامان ہیں۔ ایک طرف تو فرعون جیسا طاقتور بادشاہ اپنی تمام تر قوت کے باوجود پانی
میں بہہ جاتا ہے اور دوسری طرف وہی پانی حضرت موسٰی ؑ کو جب وہ شیر خوار تھے بظاہر
بے سرو سامانی کی حالت میں خوف کے مقام سے امن کے مقام کی طرف بہا کر لے جاتا ہے۔
عذاب الٰہی کی قسمیں:
قرآن کریم سے عذاب کی درج ذیل صورتوں کا ذکر ملتا ہے۔
1. مسلسل شدید بارش اور ہولناک سیلاب کا ظاہر ہونا (سورۃ القمر۱۱ تا ۱۳)
2. منحوس تیز ہواؤں کا چلنا جو آبادیاں ویران کر دیں۔ (سورۃ القمر۱۹ تا ۲۱)
3. آسمان سے گرج اور دھماکوں کا ظاہر ہونا مثلا آتش فشاں کا پھٹنا (سورۃ الحجر۷۴،۷۵)
4. آندھیوں کے نتیجہ میں بستیوں کا علاقہ ریت کے نیچے دب جانا (سورۃ الاحقاف۲۶)
5. پے در پے سیلابوں کا آنا جو خطہ کی ہیئت ہی تبدیل کر دے (سورۃ السبا۱۷)
6. زلازل کے نتیجہ میں انسانی آبادیوں کا دھنس جانا۔ (سورۃ الشمس۱۵)
7. طویل خشک سالی کی وجہ سے کا پانی انسانی مقدرت سے گہرا ہوجائے (سورۃ الملک۳۱)
8. قحط سالی کے نتیجہ میں شدید خوف و ہراس
(سورۃ النحل۱۱۳)
9. جنگوں کے ذریعہ قوموں کا ایک دوسرے کو تباہ کرنا (سورۃ الاعراف۹۵)
10. پرندوں کا عذاب الٰہی بن کر اترنا (سورۃ الفیل۴ تا ۶)
11. اچانک کسی جھیل یا ڈیم کا پھٹنا(سورۃ الفجر۱۴،۱۵)
12. موسمی تغیرات کے نتیجہ میں خشکی یا تری کا ایسے جانوروں کا بکثرت پیدا ہونا جو
کہ نتیجہ میں مختلف بیماریاں جنم لیں (سورۃ الاعراف۱۳۴)
13. ایک قوم دوسری قوم پر مسلط کرنا جو ان کو مختلف عذابوں میں مبتلا کرے (سورۃ
الاعراف۱۶۸)
14. کسی قوم کو ذلت اور مغلوبیت کی حالت میں مغضوب علیھم بنا دیا جاتا ہے۔
چار معروف عناصر طبعی:
حضورؒ فرماتے ہیں کہ یہ عجیب بات ہے کہ 4 عناصر میں سے 3 یعنی مٹی، پانی اور ہوا کا ذکر
گزشتہ قوموں کی تباہی کے سلسلہ میں ملتا ہے کہ کیسے یہ تین عناصر خدا کے عذاب کا
ذریعہ بنے۔ مگر چوتھے عنصر یعنی آگ کا بطور عذاب استعمال ہونا گزشتہ اقوام کے ذکر
میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور سورۃ بروج کے بیان سے یہ
ضرور پتہ چلتا ہے کہ آگ نیک لوگوں کی آزمائش کیلئے استعمال کی گئی۔ اور قرآن کی
پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے انکار کی وجہ سے قوموں
پر آگ کا عذاب بھی نازل ہوگا۔ قرآن کی درج ذیل
آیات میں کھینچا گیا نقشہ آج کی جنگوں سے بہت ملتا ہے۔
اس کی سمت چلو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ایسے سائے کی طرف چلو جو
تین شاخوں والا ہے۔نہ تسکین بخش ہے نہ آگ کی لپٹوں سے بچاتا ہے۔یقیناً وہ ایک قلعہ
کی طرح کا شعلہ پھینکتا ہے۔گویا وہ جوگیا رنگ کے اُونٹوں کی طرح ہے۔ہلاکت ہے اُس
دِن جھٹلانے والوں پر۔ (المرسلات 30-35)
پھر سورۃ الھمزۃ میں بھی آگ سے ڈرایا گیا ہے جو آج کے
ایٹم بم کی شکل پیش کرتا ہے۔
فرمایا:
خبردار!
وہ ضرور حُطَمَہ میں گرایا جائے گا۔ اور تُجھے کیا بتائے
کہ حُطَمَہ کیا ہے۔ وہ اللہ کی آگ ہے بھڑکائی ہوئی۔ جو دلوں پر لپکے گی۔ یقیناً وہ
اُن کے خلاف بند رکھی گئی ہے۔ ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے کئے گئے
ہیں۔(الھمزہ 5-10)
عذاب الٰہی کی امتیازی علامتیں:
اس سوال کے جواب میں کہ ان چار عناصر کے ذریعہ حوادث تو
ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور پہلے بھی ہوئے تو کیسے ان کو عذاب الٰہی قرار دیا جاسکتا
ہے۔ حضورؒ نے عذاب الٰہی کی امتیازی علامتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
1.
پہلی امتیازی علامت: عذاب کے واقع ہونے
سے قبل ہی اس کی خبر دے دی جاتی ہے۔ مثلاً نوح علیہ السلام نے پہلے متنبہ بھی کیا
اور ذریعہ عذاب یعنی پانی کا بھی بتا دیا۔
2.
دوسری امتیازی علامت: عذاب الٰہی کے واقع
ہونے کو ایک ایسی شرط کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے جس کا کسی پہلو سے بھی ان عوامل
کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت صالح ؑ کی قوم پر آنے والا "صیحۃ واحدۃ" کا عذاب
جس کو صالح ؑ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے سے معلق کر دیا گیا۔
3.
تیسری امتیازی علامت: عذاب الٰہی کو اس
بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ کافروں کے ساتھ مومنوں کو بھی ہلاک کر دے بلکہ
بلا استثناء ایسے حادثہ کے وقت مومن بچا لئے جاتے ہیں۔ گو قرآن میں بعض ایسے
عذابوں کا ذکر ملتا ہے جن کے نتیجہ میں مومنوں کو بھی کسی قدر تکلیف اٹھانی پڑی۔
مگر یہاں بحث ان عذابوں کی ہے جو مومن اور غیر مومن میں تفریق کرنے والے ہوتے ہیں۔مگر
حوادث کسی کا انتظار نہیں کرتےاور انبیاء یا تو خود اپنے ساتھیوں کو لیکر بستی
چھوڑ دیتے ہیں یا قوم خود آبائی وطن سے نکال باہر کرتی ہے۔
4.
چوتھی امتیازی علامت: عذاب کے بعد وہ
نظریہ حیات یا تو کلیۃ مٹا دیا جاتا ہے یا مغلوب کر دیا جاتا ہے جو عذاب الٰہی سے
پہلے طاقتور تھا اور پہلے کمزور نظریہ حیات طاقتور اور غالب ہوجاتا ہے۔
5.
پانچویں امتیازی علامت: عذاب الٰہی کے
مظاہر خفیف سے کی طرف حرکت کرتے ہیں اور آخری پکڑ ہمیشہ شدید ترین اور فیصلہ کن
ہوتی ہے۔ حوادث میں ایسی کوئی ترتیب نظر نہیں آتی۔
اور ہم انہیں کوئی (روشن) آیت نہیں دکھاتے تھے مگر وہ اپنے جیسی پہلی آیت
سے بڑھ کر ہوتی تھی ۔ اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا تاکہ وہ رجوع کریں۔ (الزخرف 49)
6. چھٹی امتیازی علامت: عذاب الٰہی کا تعلق لوگوں کے دل سے ہوتا ہے یعنی استغفار اور ندامت کی صورت
میں عذاب ٹل سکتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی مثال دلیل ہے ۔
7. ساتویں امتیازی علامت: عذاب الٰہی اس وقت تک انتظار کرتا ہے جب تک نبی ہلاک ہونے والی بستی کو چھوڑ
نہ دے۔
اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب کہ تُو ان میں موجود ہو
اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ (انفال34)
ابتدائی چار امتیازی علامتوں پر لا دین یہ اعتراض کرسکتے
ہیں کہ ان کا ماخذ مذہبی تاریخ ہے جس کو ہم قبول نہیں کرتے۔ اس کے جواب میں حضورؒ
نے 3 دلائل دیئے
ہیں:
1. کوئی لادین تاریخ دنیا کی بنیاد پر یہ انکار نہیں کرسکتا کہ
انبیاء کے پاس ان کے ظہور کے وقت کوئی ایسا دنیاوی ذریعہ نہیں ہوتا جس سے وہ غالب
آسکیں جب کہ ان کے مقابل پر بڑی بڑی قوتیں کھڑی ہوتی ہیں۔ جو ان کو ہر طرح کا نقصان
نہیں پہنچا سکتی ہیں ۔ مگر انبیاء غالب آتے ہیں اور صدیوں بعد بھی ان کے ماننے
والے موجود ہوتےہیں۔ مثلا حضرت عیسٰی علیہ السلام اور عیسائیت کے مقابلہ میں سلطنت
روما جبکہ آنحضرت ﷺ اور اسلام کے مقابلہ میں رومن اور فارس کی سلطنتیں ۔ گویا
انبیاء کے ظہور کے وقت اہل دنیا کی نظر میں انکا ہونا یا نہ ہوناکوئی حیثیت نہیں
رکھتا۔
2. دوسری دلیل یہ جس سے لادین انکار نہیں کرسکتے کہ یہ عظیم
سلطنتیں اور قومیں حوادث طبعی (یعنی عذاب الٰہی) کے نتیجہ میں ختم ہوئیں۔ اور ان پر
بعد میں وہ غالب آئے جو کمزور سمجھے جاتے تھے۔ اگر یہ حوادث زمانہ ہی تھے تو سب
سے پہلے کمزوروں کو ختم ہونا چاہیئے تھا نہ کہ مضبوط محلات میں رہنے والوں کو
حوادث کو یہ تمیز کہاں سے آئی کہ کمزور اور طاقتور میں فرق کرے؟
3. تیسری دلیل یہ کہ تباہ ہونے والی تمام بستیاں نبی پر ایمان
لانے والی جماعتوں کی نہیں بلکہ منکروں اور بے دینوں کی تھیں۔
عذاب الٰہی کی جو قسمیں قرآن کریم کی رو سے بیان کی گئی ہیں
یاد رہے کہ انبیاء کی بعثت کے بغیر بھی بعض اوقات حوادث طبعی کو عذاب کا نام دیا
جاتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی قوم اپنے اعمال اور اخلاق میں حد سے
زیادہ گندی ہوچکی ہو۔ عذاب کی اس قسم کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے :
اور یہ وہ بستیاں ہیں جنہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک
کر دیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ (الکھف60)
بد اعمالیوں کی وجہ سے وارد ہونے والے عذاب کے متعلق عمومی
انتباہ تو آسمانی صحیفوں میں موجود ہوتا ہے لیکن لازم نہیں کہ عذاب سے پہلے
پیشگوئی بھی کی جائے اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ عذاب کسی مذہب کے غلبہ پر منتج ہو۔
طاعون
حضورؒ نے اس مضمون کے دوسرے حصہ میں اس بات پر روشنی ڈالی
ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی بعض پیشگوئیاں ایسی ہیں جو انسان کو
آسمانی عذابوں کے ظہور سے ڈراتی اور متنبہ کرتی ہیں۔ اور اس ضمن میں
"طاعون" کے نشان پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔
طاعون بھی دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے جو طبعی
محرکات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ اور کبھی یہ عذاب الٰہی کی شکل اختیار کرلیتی
ہے۔ ایسی بیماری نہیں جو عام وبائی بیماریوں کی طرح روزمرہ مختلف موسموں میں سر
نکالتی رہے جیسے ملیریا یا انفلوئنزہ وغیرہ۔ یہ ایسی بیماری بھی نہیں جو دو چار یا
دس بیس سال کے بعد وباء کی صورت میں نکلے جیسے چیچک وغیرہ۔ یہ ایک ایسی پراسرار
بیماری ہے جو ایک دفعہ تباہ کاری مچانے کے بعد جب دنیا سے رخصت ہوتی ہے تو بعض
اوقات سینکڑوں سال تک نہیں دکھاتی۔
طاعون کا حملہ کب کب ہوا:
حضورؒ فرماتے ہیں کہ محفوظ ریکارڈ کے مطابق طاعون کا پہلا
حملہ (پہلہ حملہ یعنی جس کے بارے میں ریکارڈ محفوظ ہے) حضرت مسیح ؑ کے واقعہ صلیب
سے گیارہ سو سال پہلے فلسطین میں ہوا۔ یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام کے وصال کے بعد
تیسری صدی موسوی میں۔ یہ امر بعید نہیں کہ اس وقت یہود کے بگڑنے پر یہ عذاب الٰہی
کی شکل میں ظاہر ہوئی ہو۔
اس کے بعد پہلی صدی عیسوی میں فلسطین اور ارد گرد کے علاقوں
میں ظاہر ہوئی جو بالعموم یہود کا مسکن تھا۔
پھر دوسرا حملہ دوسری صدی عیسوی میں ہوا جو پہلے کی نسبت
زیادہ وسیع تھا۔ شام، مصر اور لیبیا کے شمالی حصہ لپیٹ میں آئے۔
پھر تیسرا حملہ کم و بیش ایک سو سال بعد تیسری صدی عیسوی
میں ہوا۔ اس مرتبہ پھیلاؤ پہلے سے بھی بڑھ کے تھا۔
ہر سو سال کےوقفہ کے بعد پھوٹنا اور طاعون کے پھیلاؤ کا
عیسائیت کے پھیلاؤ کے ساتھ مطابقت رکھنا خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں عیسائیت پر
مظالم ڈھائے جا رہے تھے خاص مشیئت الٰہی کے ماتحت نظر آتا ہے۔
دوسری مماثلت عذاب الٰہی سے ان تین حملوں کی یہ نظر آتی ہے
کہ باوجود عیسائی کمزور اور غریب تھے مگر طاعون کے ہر محلہ کے بعد یہ طاقتور ہوتے
گئے۔ تیسری صدی کے حملہ کے بعد چوتھی صدی عیسائیت کے غلبہ کی صدی ہے جس کے ظاہر
ہوتے ہی طاعون پر اسرار طور پر غائب ہوجاتی ہے اور تین سو سال بعد یعنی چھٹی صدی
عیسوی میں جب کلیسیا بھی فسق و فجور کا شکار ہوا تو ظاہر ہوئی اور قریبا تمام
عیسائی دنیا ہی لپیٹ میں آئی۔ طاعون کا یہ حملہ عین اس زمانہ میں ہوا جب آنحضرت
ﷺ کی عرب میں ولادت ہوئی اور کم و بیش ۵۰ سال تک عیسائیوں کا پیچھا نہ چھوڑ ا جب
تک ظہور نبوتؐ نہ ہوگی۔ گو یہ وباء شام ،فلسطین اور مصر سے نکل کر سمندر پار یورپ
تک جا پہنچی مگر سرزمین حجاز میں داخل نہ ہوئی۔
اس کے بعد 800سال تک طاعون غائب رہی اور پھر ۱۳۷۰ سے ۱۳۷۵ تک دنیا کے
وسیع حصہ میں پھیلی، یہ وہ زمانہ ہے جب اسلامی دنیا شدید اخلاقی انحطاط کا شکار تھی
اور دوسری طرف عیسائی دنیا بھی فسق و فجور سے بھر چکی تھی۔
اسلام بھی تیسری صدی (تیسری صدی ہجری اور ۹ ویں صدی عیسوی)
میں روحانی آفات اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوتے نظر آتا ہے۔ یہ وہ صدی تھی جب
مسلمانوں کی مرکزی حکومت نے ہسپانیہ کی اسلامی حکومت کے خلاف یورپ کی عیسائی
طاقتوں کے ساتھ تعاون کرنے کی ٹھانی۔ یہ اسلام کے قلعہ میں پہلا رخنہ تھا۔ چنانچہ
چوتھی صدی ہجری میں تاریکی کا آغاز ہوتا ہے اور چھٹی صدی ہجری میں تب عروج کو پہنچتی
ہے جب مغرب میں عیسائی طاقتیں مسلمانوں کو سپین سے نکال باہر کرتی ہیں اور مشرق
میں چنگیزیوں کا عذاب سقوط بغداد پر منتج ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ
تک ایک گہری رات چھا جاتی ہے۔
حضورؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"تاریخ کے اس دور کا مطالعہ
کرنے سے توحید کا ایک بڑا قیمتی سبق ملتا ہے۔ یہ کہ انسان خواہ کسی طرف منسوب ہو
اپنے خالق کی نظر میں اس حد تک برابر ہے کہ اگر اس نے ایک مذہب کے دائرے میں غلطی
کی ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دائرہ میں رہ کر اگر ویسی ہی غلطی کرے گا تو ویسی ہی سزا
پائے گا۔ لا نفرق بین احد میں رسلہ کا ایک یہ بھی مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ محض اس لئے کہ کوئی انسان کسی برتر
رسول کے نام لیواؤں میں سے ہے اس کی بے راہ روی معاف نہیں کی جائے گی۔"(صفحہ
۶۸)
طاعون کا ظہور مختلف ادوار میں :
حضرت موسٰی علیہ السلام کے ۳۰۰ سال بعد 1100 BC
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعد پہلی صدی عیسوی دوسری
صدی تیسری
صدی
آنحضرت ﷺ کی پیدائش اور ظہور نبوت کے وقت چھٹی صدی
اسلامی اور عیسائی سلطنت کے انتہائی بگاڑ کے وقت ۱۳۷۰ء تا ۱۳۷۵ ء
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت ۱۸۸۰ء تا ۱۹۰۶ء
طاعون کا دورِ آخر:
1880ء میں میسوپوٹیمیا کے علاقہ سے طاعون کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت
مسیح موعود علیہ السلام قادیان کی گمنام بستی میں اسلام کی دفاعی جنگ لڑنے کا
آغاز کر چکے ہوئے تھے۔ایسے وقت میں اسکا دوبارہ اتنی صدیوں بعد ظاہر ہونا یقینا
معنی خیز ہے۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
اس کا بطور عذاب ہونا قرار نہ دے دیا تب تک طاعون کھل کر نہ پھیلا۔
حضورؒ فرماتے ہیں کہ 1897ء میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ خبر
دی کہ طاعون قادیان میں داخل ہوگی۔ گو کہ اس سے قبل ہندوستان میں طاعون کے حملہ
ہوچکے تھے مگر پنجاب محفوظ تھا۔ ابتداء میں حضور ؑ اس کو خارش کی قسم سمجھتے رہے
مگر پھر بڑی وضاحت سے خبر ملنے کے بعد آپ نے 6 فروری 1898ء کو پنجاب کو خصوصا اور ہندوستان کو عموما ایک اشتہار کے
ذریعہ سے متنبہ کیا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ۔ بار دوم۔ پبلشر نظارت اشاعت ربوہ۔
مطبع ضیاء الاسلام پریس ۔ اشتہار نمبر 186۔ صفحہ نمبر 183 تا 187)
حضور ؑ کے اس اشتہار کے دو سال تک پنجاب پر کوئی غیر معمولی
حملہ نہ ہوا۔ مگر جیسے ہی حضور ؑ کی اس پیشگوئی کا مزاق اڑانا اور تمسخر شروع کیا
گیا تو اچانک اگلے ہی سال طاعون پنجاب میں تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا۔ اس پر بھی
حضور نے 17 مارچ 1901ء کو اپنے ہم وطنوں کے نام ایک
اشتہار شائع فرمایا جس میں نصیحت فرمائی اور توبہ و استغفار کی ہدایت کی۔
(مجموعہ
اشتہارات جلد دوم ۔ بار دوم۔ پبلشر نظارت اشاعت ربوہ۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ۔
اشتہار نمبر241۔ صفحہ نمبر 500 تا502)
طاعون کی وباء کا غیر معمولی طرز عمل جو اسے عام وباؤں
سے ممتاز کرتا ہے :
جہاں حضورؑ نے طاعون کے عذاب الٰہی ہونے کی پیشگوئی فرمائی
وہاں خدائی اشاروں کے مطابق حضور ؑ کی
تحریرات سے یہ 5 دعاوی بھی پتہ
چلتے ہیں:
1. پیشگوئی کے بعد اس وباء کو غیر معمولی طور پر بڑھنا چاہیئے
تھا۔
2. نہ صرف آپ کا گھر بلکہ قادیان بھی دیگر شہروں کی نسبت ہلاکت
خیز حملوں سے محفوظ رہے گا۔
3. عموما جماعت احمدیہ کے افراد اس حملہ سے اس حد تک نمایاں
طور پر محفوظ رہنے چاہیئے تھے کہ یہ بات لوگوں کی نظر میں عجیب ٹھہرے۔
4. یہ مرض آپ کے گھر کی چار دیواری میں بسنے والوں کو ہر گز
کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
5. طاعون کے نتیجہ میں لوگوں نے بکثرت ایمان لانا تھا۔
ان پانچ دعاوی کی تفصیل درجہ وار حسبِ ذیل ہے:
1۔ پیشگوئی کے بعد غیر معمولی طور پر وباء کا
بڑھنا:
ء1880 ایک ملک
ء1881 تین ممالک
ء1882 دو ممالک
ء1883 ایک ملک
ء1884 دو ممالک
ء1885-88 ایک ملک
ء1889-91 تین ممالک
ء1892 چار ممالک
ء1893-94 چار ممالک
(دعوٰی سے
قبل کی یہ انتہائی چوٹی ہے)
ء1895ء دو ممالک
ء1896-97ء چھ ممالک
ء1898 آٹھ ممالک
(اس سال طاعون کے متعلق
دعوٰی کیا اور گزشتہ سال کی نسبت یہ وباء ہے جو 8 ممالک تک پہنچی)
1899ء اکیس ممالک
1900ء چھبیس ممالک
1901ء ستائیس ممالک
1902ء اٹھائیس ممالک
گویا پیشگوئی والے سال کے بعد 21 سالوں میں طاعون ایک بلا کی طرح پھیلنا شروع ہوا۔
بلحاظ اموات صرف ہندوستان کے اعداد و شمار درج ذیل ہیں :
1896 2,219
1897 47,976
1898 89,265
1899 102,369
1900 73,576
1901 236,433
1902 452,655
1903 684,445
1904 938,010
1905 940,821
1906 300,355
1898سے اموات بڑھتی
ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور صرف 1900ء میں کم ہوئیں۔ مگر پھر ہر سال بڑھتی چلی گئیں۔ 1906میں کم ہونا شروع ہوئیں اور
حضور ؑ کے وصال تک طاعون کی وباء تقریبا معدوم ہوگئی۔
ان اعداد و شمار سے قرآن کی سورۃ الزخرف آیت 49 کا مضمون واضح
ہوتا ہےجس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور ہم انہیں کوئی (روشن) آیت نہیں دکھاتے تھے مگر وہ اپنے جیسی
پہلی آیت سے بڑھ کر ہوتی تھی ۔ اور ہم نے انہیں عذاب کے ذریعہ پکڑا تاکہ وہ رجوع
کریں۔
2۔ قادیان کی بستی سے استثنائی سلوک:
پہلی شق پر کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ 1880ء سے طاعون کے حالات دیکھتے ہوئے
یہ دعوٰی کردیا گیا۔ گو کہ اعداد و شمار سے یہ بات واضح ہے کہ کیسے حیرت انگیز فرق
نظر آیا پر اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ محض پھیلنے کا دعوٰی نہ تھا بلکہ اگلا
دعوٰی اس سے بھی بڑا تھا کہ قادیان کی بستی سے استثنائی سلوک ہوگااور یہ وباء محض
معمولی حیثیت میں داخل ہوگی اور دیگر شہروں کی طرح پیسا نہ جائے گا۔ اس دعوٰی پر
بھی اس اعتراض سے بچنے کیلئے کہ ایسے زمانہ میں یہ دعوٰی کردینا بھی غیر معمولی
نہیں ۔ چنانچہ حضور ؑ نے باقی اہل مذاہب کو ایک چیلنج دیا کہ اگر وہ مذہب یا فرقہ
سچا ہے تو اپنے اپنے شہر کی نسبت بعینہٖ یہ دعوٰی کر دے ۔ یہ چیلنج حضورؑ نے اپنی
کتاب دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ جدید ایڈیشن 2008ء ص 230 تا 231پر درج کیا۔ اس
چیلنج کے باوجود کسی کو توفیق نہ ملی کہ اپنی بستی کے بارے میں یہ دعوٰی کر سکے کہ
خدا تعالیٰ اسے طاعون کی غیر معمولی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔
3۔ الدار کی حفاظت :
دوسری شق پر ایک شکی مزاج یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ امکان کا
سہارا لیکر یہ پیشگوئی کر دی کہ قادیان میں طاعون تو داخل ہوگی مگر باقی شہروں کی
طرح آفت انگیز نہ ہوگی۔ اس اعتراض کا جواب یہ تیسرا وعدہ تھا جو خدا نے کیا وہ یہ
کہ تیرا گھر یعنی "الدار "مکمل طور پر محفوظ رہے گا اور جو کوئی
اس میں ہے وہ طاعون کی زد میں نہ آئے گا۔ یہ شق اس پیشگوئی کی شوکت میں اور اضافہ
کر دیتی ہے۔ کیونکہ اگر قادیان میں طاعون کلیۃ داخل نہ ہوتا اور شریر بھی محفوظ
رہتے تو معترض کہتا کہ یہ عین اتفاق ہے کہ طاعون کا جراثیم قادیان میں داخل نہیں
ہوا۔ چنانچہ نہ مخالفین کو کچھ ہوا اور نہ مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں
کو۔ اگر یہ نشان تھا تو نیک و بد میں کوئی تمیز کرتا اور اس صورت میں اس شق پر یہ اعتراض
پڑتا کہ آپ کے گھر والوں کو محفوظ رہنا تب نشان ہوتا جب ارد گرد طاعون راج کرتا ۔
یہ اعتراض عین ہمارے دعوٰی کے مطابق ہے۔ خدا نے ایک طرف تو قادیان میں طاعون کے
داخل ہونے کی خبر دی اور یہ فرمایا کہ دوسرے شہروں کی طرح اس پرقابض نہ ہوگا اور
اسی وقت "الدار"جو حضورؑ کا گھر تھا۔ اور عین آبادی کے وسط میں
واقع تھا طاعون سے کلیۃ محفوظ رہے گا۔ پیشگوئی کے مطابق عین ایسے ہی ہوا۔ جہاں
پورے پنجاب میں بالخصوص اور قادیان میں بالعموم طاعون پھیلا وہاں حضور ؑ کا گھر
بالکل محفوظ رہا۔ یہاں تک کہ حضور کے گھر کے ساتھ کے گھر میں موت ہوئی مگر حضور ؑ
کا گھر اثر سے محفوظ رہا۔ حضور ؒ فرماتے ہیں کہ چوہوں کے ذریعہ ایک گھر سے دوسرے
گھر میں وباء کا داخل ہونا عین قرین قیاس ہے مگر ایک نہیں دو نہیں مسلسل 9 سال تک یہ چار دیواری محفوظ رہتی
ہے اور ایک بھی طاعونی موت واقع نہیں ہوتی۔
جھوٹا پراپیگنڈا:
اس وقت اخبار " پیسہ" نے طاعون کی ہلاکتوں
کے متعلق فرضی قصے شائع کرنے شروع کئے۔ حضورؑ نے ان بوگس اعتراضات کا بھی جواب دیا
اور ثابت فرمایا کہ یا تو وہ اشخاص زندہ ہیں اور بالکل صحت مند ہیں ، دوسرا یہ کہ یا
فرضی نام لکھ کر فوت شدہ ظاہر کر دیا ہےیا پھر ویسا کوئی شخص قادیان میں ہے ہی
نہیں یا کسی اور بیماری کی وجہ سے ہلاک ہونے کو طاعون کا ہلاک شدہ قرار دے دیا ہے۔
حضورؒ فرماتے ہیں کہ اس جھوٹے پراپوگینڈا کا بھی آج فائدہ
ہے۔ ایک محقق انسان سوچتا ہے :
1. اگر قادیان میں عام تباہی مچی تھی تو دشمن حکومتی ریکارڈ سے
ثابت کرتے۔
2. اگر واقعی اموات ہوئی تھیں تو دشمن اخبارات فرضی ناموں کے
محتاج نہ ہوتے۔
3. اور بطور الزام یا فرضی طور پر بھی "الدار" میں
کسی ہلاکت کا ذکر نہ کرنا بے بسی کی دلیل ہے اور "الدار" کی حفاظت کا
ثبوت ۔
طاعون کا شبہ:
اس تمام عرصہ میں بیماریوں کے صرف دو واقعات ایسے ہوئے جن
پر طاعون کا شبہ گزرا۔ ایک محمد علی صاحب ایم ۔ اے کو بظاہر بخار اور گلٹی نکلی
اور دوسرا میر اسحاق ؓ صاحب کو۔ مگر حضور
ؑ کی خاص توجہ اور دعاؤں سے شفا یابی ہوئی۔ اور خدا تعالیٰ کی غیرت نے یہ بھی پسند
نہ کیا کہ مسیح کی چار دیواری میں بسنے والا کوئی متنفس طاعون کے شبہ میں بھی مارا
جائے۔
4۔جماعت احمدیہ کی حفاظت کا وعدہ:
گو حضورؒ نے اس دعوٰی میں اولیت حاصل کی کہ طاعون چونکہ
عذاب الٰہی ہے اس لئے صرف روحانی علاج ممکن ہے۔ لیکن حضورؑ کے دعوٰی کے بعد مختلف
مذاہب اور فرقوں کے رہنماؤں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور اپنا اپنا حل پیش کیا۔
مثلا کسی نے میدانوں میں آکر دعاؤں کو ترجیح دی تو کسی نے مسیح کو خدا مان لینے
اور کفارہ پر ایمان کو نجات قرار دیا۔ ہندوؤں نے ویدوں پر ایمان لانے کو راہ نجات
قرار دیا۔
ان تمام روحانی علاجوں کے بعد حضورؑ نے ایک دفعہ پھر اپنا مؤقف
ذیل الفاظ میں پیش فرمایا:
"اس بیماری کے دفع کیلئے وہ
پیغام جو خدا نے مجھے دیا ہے وہ یہی ہے کہ لوگ مجھے سچے دل سے مسیح موعود مان
لیں۔"
(دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ جدید ایڈیشن 2008ء ص 226)
حضور ؒ فرماتے ہیں کہ حوادث کا قانون اندھا ہوتا ہے اور نیک
و بد میں تمیز نہیں جانتا، اگر یہ بیماری حوادث کا نتیجہ ہوتی تو بلا شبہ حضورؑ کے
متبعین سے بھی ویسا ہی سلوک کرتی۔ حضور ؑ اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے دعاوی میں
بنیادی فرق یہ تھا کہ حضور ؑ نے جو علاج تجویز فرمایا وہ خدا کی طرف سے خبر پاکر
فرمایا۔ پس کوئی وجہ نہ تھی کہ اگر آپ ناکام ہوتے تو لوگ مرتد ہو کر آپ کو چھوڑ
دیتے۔ آپ کے مریدوں اور متبعین کا یہ یقین ہی تو تھا کہ خدا آپ سے ہمکلام ہوتا
ہے جس نے انکو حضور ؑ سے جوڑا ہوا تھا۔ اگر یہ دعوٰی محض دعوٰی ہوتا تو کیا
احمدیوں کا سر پھر گیا تھا کہ عذاب کی دوہری چکی میں پستے، ایک طرف دنیا کا عذاب تو
دوسری طرف الٰہی عذاب۔ چنانچہ اس پر آشوب زمانہ میں جماعت احمدیہ کی غیر معمولی
استقامت اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے حضورؑ کے دعوٰی کو پورا ہوتا دیکھا ہوگا کہ
کیسے وہ طاعون کی زد سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہے۔
واقعاتی شہادت بھی اسی بات کی گواہ ہے کیونکہ اس زمانہ میں
جماعت میں لوگ جوق در جوق تو داخل ہوئے مگر اس وباء کی وجہ سے جماعت سے بھاگنے کا
کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ پنجاب کے کئی دیہات میں اذن الٰہی سےطاعون کے بعد جماعت کا
پودا لگا۔ اور جن دیہاتوں میں یہ پودا پہلے سے موجود تھا وہاں جماعت کم ہونے کی
بجائے اورپھیلی۔
شاید کوئی یہ اعتراض کرے کہ ڈر اور خوف سے لوگ احمدی ہوگئے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیوں نہ لوگ دوسرے فرقوں میں داخل ہوگئے۔ کیونکہ احمدیت
میں ہی ہوئے جب کہ اس فرقہ کی مخالفت بھی زیادہ تھی۔ اور دوسرا یہ کہ کوئی ایک
بستی اس عرصہ میں ایسی دکھائی جو اپنے آبائی مذہب یا فرقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے
فرقہ یا مذہب میں داخل ہوئی ہو۔ اس کے برعکس ثبوت کے طور پر کئی ایسی بستیاں
دکھائی جاسکتی ہیں جو طاعون کی وجہ سے احمدیت کی آغوش میں آئیں۔
پھر اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے اور ایک ایسا تقابلی
جائزہ تیار کیا جائے کہ کتنے احمدی بزرگان اور علماء طاعونی موت کا شکار ہوئے اور
کتنے معاندین احمدیت ہلاک ہوئے تو یہ حیران کن بات سمانے آئے گی کہ کوئی احمدی
عالم یا بزرگ طاعونی موت کا شکار نہ ہوا جب کہ کئی معاندین احمدیت طاعونی موت کے
شکار ہوئے اور جماعت کی صداقت کا نشان بن گئے۔
ان میں سے چند ایک نام درج ذیل ہیں :
1. مولوی رسل بابا
2. محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ
3. چراغ دین
4. نور احمد
5. مولوی زین العابدین
6. حافظ سلطان سیالکوٹی
7. حکیم محمد شفیع
8. مرزا سردار بیگ
9. مولوی محمد ابو الحسن
10. ابو الحسن عبدا لکریم وغیرہ
5۔ طاعون کے زائل ہونے کیلئے قبول احمدیت کی
شرط:
پیشگوئی میں ایک حصہ یہ بھی تھا کہ یہ وباء تب تک نہیں ٹلے
گی جب تک لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ پنجاب جو اس پیشگوئی کا اولین
مصداق تھا۔ میں طاعون کے نتیجہ میں کثرت سے احمدیت کی طرف رجحان ہوا۔
"ان دنوں اتنی غیر معمولی ترقی
ہوئی کہ اس کی تعداد ہزاروں سے نکل 1902ء
میں ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ 1903ء
میں اس کثرت سے لوگ آپ کے مبائعین میں شامل ہوئے کہ اخبار الحکم کو مجبوراً نئے مبائعین کی فہرست کا کالم ہی بند کردینا
پڑا۔ 1904ء میں یہ تعداد 2 لاکھ اور 1906ء میں چار لاکھ تک پہنچ گئی۔"
(تاریخ احمدیت جلد دوم ص 216)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ عذاب الٰہی کے ٹلنے کیلئے اکثریت کے
ایمان کی نہ توکوئی شرط قرآن میں نظر آتی ہے نہ ہی تاریخ مذہب میں۔ ہر عذاب
سلسلہ عذابوں کی ایک کڑی ہوتا ہے اور آخری مقصد بہرحال مامور زمانہ کی فیصلہ کن
فتح ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ عذاب کے ٹلنے سے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چند لوگوں کے
استغفار سے ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیا ہے۔ لہذا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی
پے در پے عذابوں کی خبر دی اور طاعون ان میں سے ایک تھا۔ اور مسیح اول کی طرح مسیح
ثانی کے دور میں بھی عین ممکن ہے کہ تائید کے طور پر یہ بار بار ظاہر ہو۔
جماعت کو بشارت و تنبیہ:
حضورؒ مضمون کے آخر میں جماعت کو تنبیہ کرتے ہوئے اور
بشارت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
"جماعت احمدیہ کیلئے اس میں تنبیہ
بھی ہے اور بشارت بھی۔ تنبیہ یہ ہے کہ صرف احمدیت کا عنوان طاعون سے بچانے کیلئے
کافی نہ ہوگا بلکہ تقوٰی کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے…. بشارت کا پہلو یہ ہے کہ جماعت میں اس وقت تک جو عملی کمزوریاں
آچکی ہوں گی طاعون کا خوف بڑی تیزی کے ساتھ ان کی اصلاح کرے گا اور وہ احمدی جو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی چار دیواری سے باہر ہوا خوری میں مصروف
ہوں گےوہ ان شاء اللہ بڑی سرعت کے ساتھ دوڑتے ہوئے اس چار دیواری میں واپس لوٹنے
کی کوشش کریں گے جو امن اور عافیت کا حصار ہے۔" (صفحہ 121)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین