بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے قادیاں
دارالاماں اونچا رہے تیرا نشان
عام
طور پر ان دنوں میں جب انسان قادیان دارالامان مسیح پاک کی بستی میں آئے تو ہر طرف
دھند اور شدید سردی کا ڈیرہ ہوتا ہے لیکن اس بار موسم بالکل مختلف ہے اور سورج
اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ ایسے موسم اور گرما دینے والے دھوپ میں
بہشتی مقبرہ میں بیٹھ کر ڈائری لکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے کیونکہ نہ صرف اس بستی
میں امام دوراں کی روحانی حرارت آج تک قائم ہے اور محسوس کی جاسکتی ہے بلکہ موسم
بھی خوشگوار ہے۔
اس
سال اللہ کے فضل سےمجھے ایک بار پھر مسیح پاک آخرالزمان کی مقدس بستی کی زیارت اور
مسیح پاک کے جاری کردہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے کا موقعہ ملا۔ الحمد للہ
علی ذالک۔
دو
دن قبل 19 دسمبر 2015ء کو اس بابرکت مقصد کے لیے سفر شروع کیا۔ اس دفعہ فرق صرف
اتنا تھا کہ فیملی بھی ہمراہ تھی اور فیملی ساتھ ہونے کا مطلب پہلے سے زیادہ سامان
اور مزید سفری احتیاط بھی۔چنانچہ سفر و حضر اور اس زیارت کے بابرکت ہونے کے لیے
چلنے سے ایک دن قبل حضور اقدس کی خدمت میں دعائیہ فیکس لکھی۔ اس فیکس کے بعد
اطمینان ہوگیا کہ اب تمام معاملات یقینا آسانی سے طے پاجائیں گے۔
واہگہ
بارڈر پر پاکستانی کسٹم سے کلیئر ہونے کے بعد اس سفید لائن کے قریب پہنچے جو 1947ء
میں ان دو دیشوں کے درمیان نجانے کن کن مقاصد کے تحت کھینچی گئی، عام طور پر
اسے دو قومی نظریہ کہتے ہیں۔مقصد جو بھی ہو البتہ احمدیوں کے لیے یہ لائن میری نظر
میں شاید اس لیے آج اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ اس سفید لائن کو کراس کرتے ہی ایک عجیب
احساس ہوتا ہے اور یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا کسی کھلی فضا میں سانس لینے لگے ہیں۔
![]() |
(the white line) |
اس
احساس کا تعلق بھی احمدیوں کے ایمان سے ہے جہاں پاکستان میں گزشتہ 40 سالوں سے
مسلمان کہلانے اور مسلمانوں کی طرح رہنے پر پابندی ہے۔ گو کہ احمدی مسلمان اپنے
دینی فرائض پابندی کے باوجود اصحاب کہف کی طرح ادا کرتے جارہے ہیں وہاں ایک
احساس یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہی ملک میں غیروں کی طرح رہ رہا ہے اور رہنا
بھی ایسا کہ اردگرد کے لوگوں کی اکثریت ہر وقت آپ کے خون کی پیاسی نظر آتی ہے جبکہ
یہ وہ ملک ہے جس کے قیام اور حفاظت اور تعمیر میں احمدیوں کی جانی، مالی اور وقت
کی قربانی شامل رہی ہے۔ میرے والد صاحب جو اس سفر پر میرے ہمراہ ہیں اور 70 سال کی
عمر میں پہلی بار انہیں یہ موقعہ ملا ہے کہ مسیح موعودؑ کی مقدس بستی کی زیارت کا
شرف حاصل کررہے ہیں، ریٹائرڈ آرمی افسر ہیں۔آپ نے پاکستان فوج کی طرف سے 1965ء اور
1971ء دونوں جنگوں میں اپنے ملک کا دفاع کیا لیکن آج اس طرح کے کئی محب وطن
پاکستانیوں کو جنہوں نے اس ملک کی حفاظت اپنی جان سے کی، کی خدمات کو نظرانداز
کرتے ہوئے احمدیوں کو قوم و ملک کا غدار کہا جاتا ہے۔
باغباں کو لہوکی ضرورت
پڑی سب سے پہلے یہ گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے
یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
![]() |
(Crossing Border) |
مگر
یہ احساس محرومی اس سفید لائن کو پار کرتے ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس آزاد فضا
میں کھلے عام اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر سانس لینے کا احساس ہی کچھ اور ہے اور یہ
احساس صرف بھارت آکر ہی نہیں بلکہ پاکستان سے کسی بھی ملک جا کر فوراً دل و دماغ
میں زور پکڑ لیتا ہے۔
بارڈر
پر اس جانب، یعنی پاکستان کی طرف ہی ایک حیران کن چیز دیکھنے میں آئی (جو ویسے تو
کئی مواقع پرنظر آتی ہے) کہ بارڈر پر موجود کرسیاں جن پر بیٹھ کر ہر روز شام کو
پرچم اتارنے کی تقریب میں متعدد پاکستانی شامل ہوتے ہیں ان سب پر Shezan کا اشتہار پینٹ کیا ہوا ہے۔ نہ جانے یہ سرکاری مسلمان کیسے
کافروں کی فیکٹری کی sponsored کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ ملاں بہت سالوں سے اس
کوشش میں ہے کہ احمدیوں کے مختلف کاروباروں کو مذہبی جذبات کی آگ بھڑکا کر بند
کرویا جائے۔ انسان اسے پاکستانی معاشرہ کی
خاموش منافقت نہ کہے تو اور کیا کہے۔
بھارتی
بارڈر سے قادیان کا سفر بھی آرام دہ رہا اور شام کے وقت قادیان پہنچے تو دور سے ہی
سفید روشنی میں چمکتا منارة المسیح اس بات کی طرف اشارہ کررہا تھا کہ اب منزل بہت
قریب ہے اور فوراً ہی ہاتھ دعا میں اٹھے اور دل شکر کے جذبات سے لبریز ہوکر ان گنت
دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور خدا کو اس کے مسیح پاک کا اور اس کے بنائے ہوئے منارہ کا
واسطہ دیتے ہوئے اپنی تمام دعائیں اس کے در پر ڈال دیتا ہے۔ اور وہ سارے واقعات
روح کو پگھلانا شروع کردیتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش
اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی تعمیر ہوئی۔
(Minaratul Masih) |
قادیان
ہر سال آنے پر کچھ نہ کچھ تبدیلی اور جدت اور وسعت نظر آتی ہے اور حضورؑ کا وہ
الہام وسع مکانک اپنی
آب و تاب اور شان کے ساتھ پورا ہوتا نظر آتا ہے۔ کیسے یہ چھوٹی سی بستی جو
آج بھی بظاہر چھوٹی سی ہے مگر مسیح زمان کی قدم بوسی کی وجہ سےوہ برکات سمیٹ رہی
ہے جو دنیا کاکوئی اور جدید سے جدید ملک بھی نہیں سمیٹ رہا۔
قادیان
پہنچنے پر سب سے پہلے انسان حضرت مسیح موعودؑ کی قبر مبارک کی طرف کھنچا چلا جاتا
ہے۔ یہ مقناطیسی کشش ہر احمدی کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ مزار مبارک پر پہنچنے پر
سب سے پہلے ہمارے آقا اور مطاع محمد مصطفیٰﷺ کی ہدایت اور ارشاد کے مطابق السلام
علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ سلام
پہنچانا و
لو حبوا علی الثلج۔ کوئی شک نہیں کہ احمدی صرف اندرون ہند سے
ہی ہزاروں میل کا کٹھن سفر طے کرکے قادیان پہنچتے ہیں اور اپنے آقا و مولا ہر
دوجہان کی نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔
![]() |
(Darul Masih Entrance) |
مسیح
پاکؑ کے مزار مبارک پر کھڑے ہوکر دعا کرنے کی کیفیت ہی جدا ہوتی ہے جس کا بیان
لفظوں میں مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ صرف اتنا لکھوں گا کہ ایک دفعہ جب ہاتھ
دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو انسان کا دل چاہتا ہے کہ آج اس وقت اسی موقعہ پر سب
دعائیں مانگ لے اور یقیناً خدا اپنے مسیح کے صدقے ان دعاؤں کو قبول بھی کرے
گا۔ اور یہ دل ہی نہیں چاہتا کہ دعا کے لیے اٹھائے ہوئے ہاتھ نیچے کرے یا حضورؑ کے
مزار مبارک سے ہل کر کہیں اور جائے۔
اگلے
دن 20-12-2015سے
باقاعدہ مسجد مبارک میں نمازوں کی ادائیگی کی کیفیت بھی کچھ شاندار ہوتی ہے۔ عام
طور پر انسان نماز میں اپنے خیالات سے لڑتا ہے اور واپس دھیان نماز کی طرف جماتا
ہے لیکن ان مقامات مقدسہ میں فرض اور نوافل نماز کی ادائیگی کی یہ صورت حال ہوتی
ہے کہ ایک ایک لفظ نماز کا سنوار کر اور سمجھ کر ادا کرتا ہے اور ہر لمحہ جو انسان
ان مقامات مقدسہ اور ہر دو مساجد (مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ) میں ادا کرتا ہے
ان کی لذت اور سرور تمام جہان کی لذتوں سے زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
پہلی
دفعہ جب 2006 میں قادیان آیا تو محترم میر محمود احمد ناصر صاحب نے دارالمسیح اور
ملحقہ مقامات کا تعارف کروایا اور ایک ہمیشہ یاد رہ جانے والی نصیحت کی کہ یہاں تم
جو ایک قدم بھی اٹھاؤ اور رکھو تو یہ سوچ کر اٹھاؤ اور رکھو کہ مسیح پاکؑ نے اپنی
زندگی اسی جگہ پر گزاری ہے اور نہ جانے کتنی بار حضور کایہاں قدم مبارک پڑا ہوگا۔
حتی کہ بازار میں سے بھی گزرو تو یہ سوچ کر کہ ان راستوں کو بھی مسیح پاک کی
قدم بوسی کی سعادت ملی ہوگی۔ یوں اس سوچ سے اٹھنے والا تمہارا ہر قدم ہی برکتوں کو
سمیٹنے والا ہوگا۔
قادیان
کی مبارک بستی میں آکر ہر مرد و زن بچہ و بوڑھا انرجی سے بھرپور نظر آتا ہے۔ چھوٹے
چھوٹے بچے بھی لمبی لمبی walk کرتے نظر آتے ہیں۔ اور عمر رسیدہ بوڑھے بھی جوانوں سے
پیچھے نہیں رہتے اور خاص طور پر وہ بزرگ جو اپنی انتہائی عمر میں پہلی بار یہ
سعادت اپنے نام کرتے ہیں ۔ ان کی ایک مثال میرے ابا جان ہیں۔ 70 سال کی عمر ہے،
کمر درد کے باوجود پچھلے دو دنوں سے فجر کی نماز پر گھر سے نکلتے ہیں اور شام پڑنے
پر ہی واپس آتے ہیں۔ کل میں نے بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں موجود مقدس مقامات اور
مسجد اقصیٰ میں مقامات کا تعارف کروایا تو سب جاننے کے شوق میں بھوک پیاس بھی
بھولے ہوئے تھے۔ حالانکہ ایک بیماری کی وجہ سے انہیں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کچھ
نہ کچھ کھاتے رہنے کی حاجت ہوتی ہے۔ وہاں سے فارغ ہونے پر جب بھوک کا احساس ہوا تو
کہنے لگے دارالضیافت جا رہا ہوں مسیح کا لنگر کھانے اور ضد یہی تھی کہ دارالضیافت
میں بیٹھ کر کھانا ہے گھر جا کر نہیں حالانکہ گھر میں بھی لنگر کا کھانا آتا ہے
لیکن انہیں تودارالضیافت سےبھی برکتیں سمیٹنی ہیں۔
آج
مورخہ21-12-2015
کی خاص بات یہ ہے کہ میں صبح مزار مبارک حضرت مسیح موعودؑ پر دعا کے لیے جاتے وقت
اپنی چار سالہ بیٹی ھبة الصبور کو بھی لے گیا۔ مزار پر پہنچ کر آسان الفاظ میں آپؑ
کے بارہ میں اسے سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ نام تو اسے پہلے ہی یاد ہے۔ یہ اس کی
خوش قسمتی ہے کہ اس مبارک بستی کی زیارت اس عمر میں ہی کر رہی ہے اور آئندہ زندگی
میں بھی ہزاروں برکتیں اس سفر کے باعث سمیٹتی رہے گی۔ تعارف کروانے کے بعد میں نے
اسے بتایا کہ اب دعا کرنی ہے۔ عام طور پر ایم ٹی اے پر کسی پروگرام میں حضور ایدہ
اللہ تعالیٰ دعا کروائیں تو بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتی ہے۔ ادھر بھی میرے دل میں
خیال گزرا کے اپنی مرضی کے مطابق دعا کرکے ہاتھ نیچے کر لے گی۔ میں دعا میں مشغول
ہوگیا تو بیٹی نے بھی ہاتھ اٹھا لیے۔ گزشتہ سطروں میں نے ذکر کیا ہے کہ دعا کے لیے
ہاتھ خودبخود اٹھتے ہیں تو واپس نیچے کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ میں نے دعا ختم کی تو
بیٹی کے ہاتھ اوپر ہی تھے اور میری تمام دعا کے دوران میرے کانوں میں اس کی ہلکی
ہلکی آواز پڑتی رہی۔ نجانے کیا پڑھتی جا رہی تھی مگر ایک لفظ جو دو تین مرتبہ سمجھ
لگا وہ ’’آمین‘‘ کا تھا۔ یہ وہ کشش اور تعلق ہے جو ہر انسان خواہ وہ بڑا ہو یا
چھوٹا مزار مبارک پر محسوس کرتا ہے۔ اور آنے والا ہر زائر اپنی زبان اور عقل کے
اعتبار سے ہاتھ اٹھا کر دعا میں مشغول ہوجاتا ہے۔
حضور
ؑ کے مزار مبارک کے احاطہ کی چار دیواری کے ساتھ ہی ایک پانی کا فوارہ بھی ہے جو
مسلسل چلتا رہتا ہے۔ اس کے مسلسل چلنے سے مجھے یہ احساس ہوا کہ اب ہدایت کا سرچشمہ
یہی وجود اور بستی ہے جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے روحانی پانی مسلسل فراہم کرتے
رہیں گے اور حضرت مسیح موعودؑ کا وجود آنحضرت ﷺ کے فیض کے چشمہ کے سامنے اس محدب
عدسہ کی طرح ہے جو روشنی کو بڑھا کر اور پھیلا کر ہی منعکس کرتا ہے کبھی کم نہیں
کرتا (نعوذ باللہ) جیسا کہ آج کل کے جاہل مسلمان علماء نہ صرف خود گمان کرتے ہیں
بلکہ عامۃ الناس کا ذہن بھی زہر آلودہ کرتے ہیں۔
کل
موسم کچھ ابر آلود تھا سورج بادلوں کے پیچھے چھپا رہا اور ہلکی ہلکی خنکی سے بھی
رہی۔ آج 23-12-2015موسم
گزشتہ دنوں کی طرح صاف ہے اور سورج آہستہ آہستہ اپنی حرارت بڑھاتا جارہا ہے۔ آج
مقام ظہور قدرت ثانیہ کے پاس بینچ پر بیٹھے ڈائری لکھ رہا ہوں اور لوگ مزار مبارک
اور مقدس مقامات بہشتی مقبرہ پر دعائیں کررہے ہیں اور ساتھ اس خوبصورت جگہ کی سیر
بھی کر رہے ہیں۔
قادیان
دارالامان کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ نماز کی طرف لوگ اذان کے بعد کچھے چلے
جاتے ہیں۔ پہلے دن کی بات ہے کہ میں نے دو دوستوں سے نماز کا ٹائم پوچھا۔ دونوں کا
صحیح وقت تو پتہ نہ تھا مگر جواب دونوں کا ایک ہی تھا کہ نماز کا وقت اس طرح سے
یاد نہیں رہتا کیونکہ منارة المسیح سے جب اذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو نماز کی
تیاری کے لیے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ پندرہ بیس منٹ پہلے اذان ہوتی ہے
اور اتنے میں ہر کوئی آرام سے نماز کے لیے پہنچ جاتا ہے۔ہمیں بطور پاکستانی اور
ربوہ میں رہنے کی وجہ سے شاید زیادہ گھڑی دیکھ کر نماز پر جانے کی عادت ہے کیونکہ
وہاں ہماری اذانوں پر پابندی ہے مگر قادیان اور بھارت میں تو ہماری ہر مسجد سے
اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔
اذان
کے وقت بلکہ بالعموم ہی ایک خوبصورتی مذہبی ہم آہنگی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ وہ
یوں کہ ایک طرف جہاں مسجد کے مناروں سے اذان کی آواز بلند ہورہی ہوتی ہے وہیں ساتھ
ہی بعض دفعہ ہندوؤں کے مندر سے بھجن کی آواز بلند ہوتی ہے اور دوسری طرف سکھوں کے
گوردوارہ سے بھی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر دارالمسیح کی طرف سے کسی
اردگرد کے گھر کی چھت سے دیکھا جائے تو دارالمسیح کے ساتھ قریب ہی مندر اور
گوردوارہ بھی بلند ہوتے نظر آئیں گے۔ یہ اس معاشرہ اور لوگوں کے صبر، حوصلہ اور
باہمی پیار کی نظیر ہے کہ مختلف مذہبوں سے تعلق رکھتے ہوئے بھی انتہائی قریب اور
باہمی اخوت سے رہا جاسکتا ہے۔ ایسا منظر پاکستان میں شاید ہی کہیں نظرآ ئے اور اگر
اذان کے وقت ہندو یا سکھ بھجن بلند ہو تو یقینا کفر کے فتاوی اور ان کے گھر جلا کر
راکھ کر دیئے جائیں۔
ان
دنوں میں ہماری رہائش اپنے ایک جاننےوالوں کے گھر ہے اور اس وقت ان کے گھر ان کی
فیملی کے علاوہ تقریباً بیس مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں۔ مسیح کے ان تمام مہمانوں کی
ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ سیوا کرنا بھی بہت بڑا کمال ، ظرف اور خلق ہے۔ خاص طور پر
جب گھر میں صرف ایک ہی خاتون ہو۔ (خاتون خانہ کے صرف دو بیٹے ہیں جو کہ غیرشادی
شدہ ہیں۔ اور بیٹے بھی اپنی اپنی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں) گو کہ میری اہلیہ اور مہمان
آئی دو اور خواتین کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹا دیتی ہیں مگر پھر بھی میزبان میزبان ہی
ہوتا ہے۔ اور یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے مسیح پاک کے مہمانوں کی مہمان نوازی
کی جاتی ہے اور ایک لحظہ کے لیے بھی چہرہ پر کوئی تھکاوٹ کے آثار یا ماتھے پر شکن
نہیں آتی۔
مہمانوں
کی بات ہورہی ہے تو اس ضمن میں تحریر کرتا چلوں کہ یہ بھی حضرت مسیح موعودؑ کی
صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ دنیا کے کونہ کونہ سے ہر رنگ و نسل کے لوگ اس
بابرکت جلسہ میں شمولیت اختیار کرنے آتے ہیں۔ کوئی انڈونیشیا اور ملائیشیا کا نظر
آئے گا تو کوئی انگریز۔ کوئی عرب نظر آئے گا تو کوئی افریقین۔ اور ان سب کو
آپس میں جوڑنے والا ایک پاک وجود حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور ایک نظام خلافت
احمدیہ کا ہے۔ اور ہر کوئی ایک دوسرے کو ایسے پیار و محبت بھرے انداز سے سلام کرتا
نظر آتا ہے جیسے کوئی پرانا تعلق رکھنے والا ہو۔
(Muqam Zuhoor e Qudrat e Sania) |
اس
وقت ان کے بچے بھی بڑے ہوچکے ہیں۔ جہاں والد صاحب کا یہاں آنے کا مقصد عبادت کا
حصول تھا وہاں انہیں یہ بھی خواہش ہمیشہ سے رہی کہ ان ہی ایام کے طفیل اپنے بھانجے
اس کے بچوں اور دیگر رشتہ داروں سے بھی مل لوں۔ اور یوں ان کی یہ خواہش بھی پوری
ہوئی۔ عرصہ 65 سال کے بعد اپنے کسی بچھڑے ہوئے کو گلہ لگانا عجیب کیفیت رکھتا ہے۔
وہ اپنے جن کو اپنے بچپن میں خود سے جدا ہوتے دیکھا اور اپنی زندگی کے 65 برس اس
امید سے گزار دیئے کہ شاید خداتعالیٰ دوبارہ ملنے کا موقع دے دے۔ اور الحمدللہ شکر
اس خدا کا کہ اس نے یہ موقع بھی ابا کو بڑھاپے میں مہیا کردیا۔
یہ جلسہ ہمارا یہ
دن برکتوں کے خدا کی عنایات اور شفقتوں کے
آج (26-12-2015)بروز
ہفتہ جلسہ سالانہ قادیان 2015ء کا پہلا دن ہے۔ اور آج بھی موسم خوشگوار ہے اور
دھوپ کا نام و نشان نہیں۔
الحمدللہ
کل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ میں جلسہ سالانہ قادیان
کی اہمیت اور تاریخی واقعات بیان فرمودہ حضرت موعودؓ پیش فرمائے اور جماعت کی
ترقیات کے لیے خداتعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنے کی تلقین کی۔ کل کا خطبہ
جمعہ میں نے سرخی کے چھینٹوں کے نشان والے کمرہ میں بیٹھ کر مسجد مبارک کے پرانے
حصہ میں آویزاں ایل ای ڈی پر دیکھا۔ ایک خاص کیفیت تھی جو اس وقت پیدا ہوئی کہ
کیسے سوا سو سال قبل یہاں امام الزماں بیٹھ کر اپنے صحابہ سے مخاطب ہوتا تھا
آج اسی کی ایک رؤیا کہ میں لندن میں ایک منارے پر بیٹھ کر سفید پرندوں سے مخاطب
ہوں اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ خدا کا نمائندہ
یہاں سے بولے گا اور دنیا کے کناروں تک آواز سنی جائے گی۔ آج یہ پیشگوئیاں پوری
ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں کہ حضور انور کیسے لندن میں بیٹھے نہ صرف قادیان کے
لوگوں اور مہمانان سے مخاطب تھے بلکہ تمام دنیا آپ کی مخاطب تھی۔ اور آج خلیفہ وقت
ایک دفعہ پھر اپنی پیاری جماعت کو نصائح اور تلقین کررہے ہیں اور وہی سما بندھا ہوا
ہے جو سوا سو سال قبل مسیح الزماں کے اردگرد اس کے پروانے جمع ہوکر غور سے سنتے
تھے۔
10
بجے پرچم کشائی کی بابرکت تقریب نعروں کی گونجتی صداؤں میں ہوئی اور تلاوت قرآن
کریم کے بعد مکرم و محترم جلال الدین نیر صاحب نمائندہ حضور انور نے افتتاحی خطاب
اور دعا سے باقاعدہ جلسہ کا آغاز کروایا۔افتتاح پر پڑھی جانے والی نظم حضرت مسیح
موعودؑ کے چند اشعار
دیدار گر نہیں ہے
تو گفتار ہی سہی حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی
جو خاک میں ملے
اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
اسلام چیز کیا ہے
خدا کے لیے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضیٔ خدا
پہلی تقریر : ہستی باری
تعالیٰ قبولیت دعا کے آئینہ میں:
خدا
کے بندوں کو پہچاننے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ قبولیت دعا کثرت سے نظر آتی ہے۔
خلفائے احمدیت کے قبولیت دعا کے واقعات:
ایک غانین دوست کا خلیفہ
رابعؒ کو اپنے بیٹے کی پیدائش کے متعلق فیکس جو محض حضورؒ کی دعا سے معجزانہ طور
پر پیدا ہوا تھا۔
“God
has blessed me a bombing son”
(یعنی خدا تعالیٰ
نے مجھے ایک اچھلتے کودتے بیٹے سے نوازا ہے)
حضور انور ایدہ اللہ
تعالیٰ کا 2013ء میں مشرق بعید کے دورہ کے دوران بھیانک سونامی کے متعلق فرمایا:
’’احباب فکر نہ
کریں انشاء اللہ کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
دوسری تقریر ’’اسوۂ حسنہ
رسول اللہ ﷺ اپنے گستاخ مخالفین کے ساتھ‘‘ تھی۔
اشد
ترین گستاخ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی رحمت سے محروم نہ رہا۔محمد رسول اللہ ﷺ اپنے
گستاخوں کے لیے بھی رحمة للعالمین تھے۔
اے ابوبکر جب تک آپ
گالیاں دینے والے کے سامنے خاموش تھے تو فرشتہ جواب دے رہا تھا جب آپ نے جواب دیا
تو شیطان آگیا اور میں وہاں سے چلا آیا۔
نماز ظہر و عصر کی
ادائیگی کے بعد پہلے دن کے دوسرے اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم کے ساتھ ہوا۔ پھر
نظم پیش کی گئی۔
اس سیشن کی دوسری تقریر ’’سیرت حضرت
مصعب بن عمیرؓ اور حضرت غلام رسول راجیکیؓ‘‘ از مبشر احمد کاہلوں صاحب تھی۔
’’یہ محمد ﷺ کے
ساتھی ہیں اور محمد ﷺ کے ساتھی جھوٹ نہیں بولا کرتے ۔‘‘
جب
کوئی احمدی فوت ہوتا ہے تو خدا اس سے دو باتیں پوچھتا ہے اور اگر ان دونوں باتوں
کے جواب اثبات میں ہوں تو کہتا ہے جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ۔پہلی بات یہ کہ
تبلیغ کی تھی؟ اور دوسری بات کہ چندہ دیا تھا؟۔ (مولوی راجیکی صاحبؓ کی روایت)
’’اپنے رب کریم سے
کبھی بے وفائی نہ کرنا‘‘ (حضرت خلیفہ ثالثؓ کی جماعت کو نصیحت)
’’پروین کو سوا
روپیہ دے دو‘‘
(ایک دوست کی بیٹی کی فیس کےمتعلقالہام
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ
(
کشف
میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ اپنے ہاتھ عبدالوہاب آدم صاحب اور عمر عبیدی کے سر
پر رکھتے ہیں۔ عبد الوہاب آدم صاحب کہتے ہیں کہ نتیجةً صرف(عربی گرامر) جو کہ سمجھ
ہی نہ آتی تھی اس کے چالیس چالیس صفحات ایک رات میں یاد ہونا شروع ہوگئے اور پھر
امتحان میں بھی اول آئے۔
حاتم
علی بھٹی (بھاکا بھٹیاں)احمدی تھا۔ خلیفہ ثانیؓ نے بھٹیوں کی بجائے چٹھوں کو ووٹ
دینے کا کہا جس پر اس نے گستاخی کی نتیجةً سِل کی بیماری سے میو ہسپتال لاہور میں
مرگیا۔ مولوی صاحب نے اسے فرمایا تھا کہ تم نے گستاخی کی ہے اس لیے اب بچ نہیں سکو
گے۔چار ماہ بعد شیخوپورہ کے سالانہ جلسہ پر مولوی صاحب آئے تو پوچھا سناؤ حاتم علی
کا کیا حال ہے؟ کسی نے بات ٹالنے کی کوشش کی تو مولوی صاحب نے فرمایا:
’’گھروں میں آواں
تے سنیوے تو دیویں‘‘
فرمایا پچھلے چار ماہ سے
خدا مجھے روز حاتم علی کی حالت کشف میں دکھا رہا ہے۔ کیا تم اس کو کل دفنا کر نہیں
آئے۔
آج کی highlight مبشر کاہلوں صاحب کی ہر دفعہ کی طرح ایمان افروز تقریر
تھی۔الحمدللہ دن کا اختتام خدا کے فضل سے بخیر و خوبی ہوا۔
الحمد للہ آج27-12-2015جلسہ سالانہ کا دوسرا دن ہے۔ موسم پھر مہربان ہے۔ پرچم کشائی، تلاوت اور نظم کے بعد پہلی تقریر ’’سیرت حضرت مسیح موعودؑ عاشق قرآن کی حیثیت سے‘‘ تھی۔
دوسری تقریر ’’عصر حاضر
میں قیام امن کے لیے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی
مساعی‘‘کے عنوان سے تھی۔
تیسری تقریر ’’خدمت دین
کو اک فضل الٰہی جانو۔ احباب جماعت اور عہدیداران کی ذمہ داریاں حضور انور کے
ارشادات کی روشنی میں‘‘
حضور
ؑ فرماتے ہیں مجاہدات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اطاعت کی ہے۔
حضور
انور کا Mathematics کے پیپر میں دعا کے نتیجہ میں پاس ہونے والا واقعہ۔گھر میں
عام عادت تھی کہ مغرب کے بعد باہر نہیں جانا۔خدا کے حضور التجاء کی کہ MSC میں فرسٹ ڈویژن آئے گی تو زندگی وقف کردوں گا۔ الحمدللہ
دعاؤں کے نتیجہ میں پھر ایسا ہی ہوا۔گریجوایشن کے بعد آرمی جوائن کرنے کے لیے
پریکٹیکل ٹیسٹ کے بعد میجر نے کہا تم لیڈ کرنا جانتے ہو تو ایسی جگہ جاؤ جہاں حکم
دے سکو اور لیڈ کرسکو۔ حضور نے فرمایا میں نے یہ سب اطفال الاحمدیہ اور خدام
الاحمدیہ سے سیکھا ہے۔
انتخاب
کے وقت جب پتہ چلا کہ آپ خلیفہ منتخب ہوگئے ہیں تو ذمہ داری سے کانپ اٹھےاور
دعاؤںپرزور دیا۔
حضور
ہم سب کے لیے ہر لحاظ سے نمونہ ہیں۔عہدیداران اور واقف زندگی میں وسیع حوصلہ اور
صبر ہونا چاہئے اور دوسروں کے جذبات کابہت خیال رکھنا چاہئے۔خلیفہ وقت ہی ہمارا
رول ماڈل ہونا چاہئے۔
حضور
نے ایک موقع پر فرمایا:
“مسجد
بھی اللہ کی اور موسم بھی اللہ کا، اللہ فضل فرمائے”
(فنکشن
کے بعد) جیسے ہی حضور گاڑی میں بیٹھے اس کے بعد 6 گھنٹے موسلادھار بارش ہوتی رہی۔
دوسرے
دن کے دوسرے اجلاس کا آغاز نماز ظہر و عصر کے بعد تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ اس کے
بعد حضرت خلیفہ رابعؒ کا درج ذیل منظوم کلام پڑھا گیا۔
اپنے دیس میں اپنی
بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا
جیسی سندر تھی وہ
بستی ویسا وہ گھر بھی سندر تھا
تائثرات
مہمانان کا وقت شروع ہوا ۔ ایک مہمان نے کہا:
یہاں آکر میں اپنے
جیون نوں پوتر کرکے جاریا واں
آج
کا بہترین خطاب ناظر صاحب تعلیم شیراز احمد صاحب کا تھا جس کا عنوان حضور انور
ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کی روشنی میں احمدیوں اور عہدیداران کی ذمہ داریاں
تھا۔ الحمدللہ آج دوسرے دن کا اختتام غیرمسلم مہمانان کے خوبصورت تاثرات کے
ساتھ بخیر خوبی ہوا۔
اللہ
تعالیٰ کے فضل سے ان تین بابرکت ایام کا آج28-12-2015آخری
دن ہے اور صبح دس بجے پرچم کشائی سے، پہلے اجلاس کی کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے۔تلاوت
قرآن کریم کے بعد پاکیزہ منظوم کلام حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ پڑھا گیا:
عاقل کا یہاں کام
نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں
مقصود میرا پورا ہو
اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو
یا صدق محمد عربی
ہے یا احمدی ہندی کی ہے وفا
باقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو
وہ تم کو حسین
بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے
ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو
آج کی پہلی تقریر کا
عنوان ’’خلیفہ وقت کی اطاعت و محبت اور احمدی کا فرض‘‘ تھا۔
دوسری
تقریر ’’تبلیغ کے میدان میں مبلغین کی عظیم قربانیاں اور ان کا تعلق باللہ‘‘ کے
عنوان سے تھی۔آنحضرت ﷺ کی زندگی میں وقف زندگی اپنے معراج پر نظر آتی ہے۔ اسی لیے
فرمایا :
قل ان صلاتی و
نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔
آج
بھی ایسے واقفین موجود ہیں جن کے ساتھ خداتعالیٰ کلام کرتا ہے۔ حضرت شہزادہ
عبداللطیف صاحب شہیدؓ اس کی اول مثالوں میں سے ہیں۔مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ
پہلے مجاہد تھے جو 1921ء میں افریقہ پہنچے اور بہت اعلیٰ قربانیاں کیں۔ یہاں تک کہ
پیاس بجھانے کے لیے پانی کی بجائے پیاس بجھانے والی گولیوں سے گزارا کرنا پڑا۔
انی اموت ولا
تموت محبتی یدری بذکرک فی
ترابی ندائی
آج
بھی مبلغین راجھستان جیسے صحراء میں قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں رقم کررہے ہیں۔محمد
صادق صاحب سماٹری کا جاپانی حکومت کے قتل کے فیصلہ سے بچ جانا ۔ایسی ہی ایک مثال
درویشان قادیان کی ہے جنہوں نے اس وقت قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کی جب ہر
کوئی اپنی جان بچا کر پاکستان جا رہا تھا۔ اس عظیم قربانی نے درویشان میں ایک عظیم
روحانی تبدیلی پیدا کی۔خدا کی راہ میں زندگی وقف اور قربان کرنا کوئی پھولوں کی
سیج نہیں۔
’’جے توں میرا
ہوویں سارا جگ تیرا ہوے‘‘
درحقیقت یہ الہام واقفین
زندگی کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔
’’اتباع امام کو
اپنا شعار بنائے‘‘ (مسیح موعودؑ)
پہلے
اجلاس کی تیسری اور آخری تقریر کا عنوان ’’ختم نبوت کے متعلق پیدا کردہ غلط فہمیوں
کا ازالہ ‘‘ تھا۔اس سیشن میں مولانا سلطان احمد ظفر صاحب کی تقریر بعنوان واقف
زندگی کی قربانیاں سب سے اعلیٰ پائے کی تھی۔
دوسرے
اجلاس کا آغاز حسب معمول تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ منظوم کلام پیش کیے جانے کے بعد
مہمانان کے تاثرات اور ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے اختتامی کلمات کے ساتھ مقامی طور
پر دعا کرواکر جلسہ کا اختتام کیا۔
جوں
جوں جلسہ کا اختتام ہورہا ہے جہاں دل خوش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس
بابرکت جلسہ میں شریک ہوسکیں وہاں وقت کے منجمد ہوجانے کی بھی خواہش ہے کہ انسان
یہاں جلسہ گاہ میں بیٹھے گھنٹوں حضور انور کے کلمات مبارکہ سنتا رہے اور یہ دن
کبھی ختم نہ ہو۔
تیرے کاموں سے
مجھے حیرت ہے اے میرے کریم
کس
عمل پر مجھ کو دی ہے خلعت قرب و جوار
یہ سراسر فضل و
احساں ہے کہ میں آیا پسند
ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار
اصل
اور حقیقت میں انسان کی زندگی کا خلاصہ یہی ہے۔ سب اللہ کا فضل ہوتا ہے وہ جسے
چاہے جتنا چاہے نوازتا ہے۔ انسان کا کام محض اس ذات کا شکرانہ ادا کرنا ہے اور سر
جھکائے مکمل عاجزی سے چلتے رہنا ہے۔
اختتامی خطاب حضور
انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ قادیان 2015ء
وہ زباں لاؤں کہاں
سے جس سے ہو یہ کاروبار
حضور انور نے فرمایا:
آج
ایک بار پھر جدید ایجادات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مجھے اور ہم سب کو جلسہ سالانہ
قادیان میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہی
حقیقی اسلام کا پتہ چلا ہے۔آج بھی وہ خدا اپنے چنیدہ بندوں سے کلام کرتا ہے۔جہاں
فرشتے ہیں وہاں شیطان بھی ہے اور جہاں نور ہے وہاں ظلمات بھی ہیں۔ اور شیطان اپنی
بدیوں کو پھیلانے میں مصروف ہے۔ایم ٹی اے وہ واحد چینل ہے جو 24 گھنٹے اللہ اور
رسول، نیکی اور حیا کی باتیں پھیلا رہا ہے۔صرف جلسہ کے موقع پر ہی نہیں بلکہ ہمیشہ
اللہ کی اس نعمت (ایم ٹی اے) سے ہر وقت فائدہ اٹھانے والے ہوں۔دنیا میں کوئی ایسا
مذہبی لیڈر نہیں جس کا ہر وقت تعلق اپنے ماننے والوں کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں
رہتا ہے۔ یہ انعام صرف جماعت احمدیہ کو خلافت احمدیہ کی شکل میں حاصل ہے۔خوش قسمت
ہیں وہ لوگ جو امام الزماں کو مان کر آج اس کے ادنی ٰ غلام خلیفہ وقت کی باتیں سن
رہے ہیں جب کہ کہیں دن تو کہیں رات ہے۔محض منہ سے کہہ دینا کہ ہم نے مسیح
موعودؑ کو مانا ہے کافی نہیں بلکہ صحیح اور سچے رنگ میں اس کا شکر گزار بندہ بننا
چاہئے۔108 سال پرانی مجلس میں خود مسیح الزماں تھے اور دلوں کو صاف کرتے تھے۔ اور
آج آپؑ کی باتیں ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک جن میں عرب ممالک
بھی شامل ہیں، سے لوگ نومبائع جلسہ میں شامل ہوئے ہیں آج ان کی ذمہ داری ہے کہ
اپنے ممالک میں مسیح موعودؑ کے پیغام کو پہنچا دیں۔ اسی طرح افریقن دوست بھی۔مولوی
آج بھی کوشش کرتا ہے کہ احمدیوں کو احمدیت سے علیحدہ کردے مگر مولوی ذلیل و رسوا
ہی ہوتا ہے۔ہمارے مخالفین کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہماری مخالفت کے باوجود یہ جماعت
ترقی کررہی ہے کیا خدا جھوٹے کا ساتھ دے رہا ہے۔خداتعالیٰ سے لڑائی مول لینے کی
بجائے خدا کی آواز پر غور کریں۔
’’خدا پر کوئی غالب
نہیں آسکتا‘‘
’’یاتیک من کل فج
عمیک”
“یاتون من کل فج
عمیک‘‘
حضرت
مسیح موعودؑ کی یہ پیشگوئیاں اس وقت کی ہیں جب آپ کو یا قادیان کو کوئی جانتا تک
نہ تھا۔مختلف ممالک سے لوگوں کا یہاں آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ مشہور ہوئے اور آپ
خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔
’’سب جہاں میں
گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں‘‘
آج
ہماری ہر دعا جو پوری ہوتی ہے اور ہر بات جو سچی ہوتی ہے وہ حضرت مسیح موعودؑ کی
سچائی کا نشان ہے۔یہ چھوٹی سے بستی مسیح موعودؑ کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں آج
مشہور ہے اور جانی جاتی ہے۔
خداتعالیٰ
عامۃ الناس کے سینے کھولے اور مولوی کے شر سے بچاکر امام الزمان کو قبول کرنے والے
بنائے۔ اور ہمیں بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے پیغام پھیلانے والا بنائے۔ آمین۔اور
جلسہ کے شاملین جلسہ کا فیض پانے والے ہوں۔ آمین
حاضری: 19134 ممالک: 44 لندن
میں اس وقت حاضری: 5340
الحمدللہ
خداتعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ اپنی مکمل برکات کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام کو
پہنچا۔ اللہ تعالیٰ مجھے میری فیملی اور سب شاملین کو خواہ ادھر حاضر تھے یا جیسے
حضور انور نے فرمایا جدیدٹیکنالوجی کے ذریعہ شامل ہوئے، ہم سب کو ان تمام برکات کو
سمیٹنے والا بنائے۔ اپنی زندگیوں کاحصہ بنانے والا بنائے۔ خداتعالیٰ سے مضبوط تعلق
قائم کرتے ہوئے بیعت کا حق ادا کرنے والا اور حقیقی احمدی بنائے۔ آمین
آج 29-12-2015 ہے۔کل جلسہ سالانہ کا اختتام ہوا ،
جہاں ایک طرف انسان اپنے اندر روحانی انقلاب محسوس کرتا ہے اور مضبوط عزم و ہمت
پیدا ہوتا ہے وہاں ان تینوں دنوں کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے دل بیقرار ہوتا ہے اور
گن گن کے دن گزارتا ہے کہ کب یہ مبارک دن آئیں گے۔ اور جب یہ مبارک دن انتہائی
تیزی سے گزر جاتے ہیں تو دل افسردہ سا ہوجاتا ہے کہ کاش یہ سلسلہ یوں ہی
چلتا رہے اور انسان اسی ماحول میں رچ بس جائے۔
قادیان
دارالامان کی بستی کا ایک بہت بڑا سرمایہ اس کے وہ 313 درویشان ہیں جنہوں نے اس
وقت بے سروسامانی کے عالم میں اس پاک بستی کی حفاظت کی جب ہر کوئی اپنی جان بچا کر
پاکستان ہجرت کررہا تھا۔ ان درویشان میں اسے اب قادیان میں چار حیات ہیں۔ الحمدللہ
امسال بھی ان چاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔ قربانی کی لمبی داستانیں ہیں جو ان سے
سننے کو ملتی ہیں اگر ان سے شاید گھنٹوں بیٹھ کر ملاقات بھی کی جائے تو نہ
تو ان قربانیوں کی داستان ختم ہو اور نہ ہی انسان ان کو سننے سے اکتائے۔ انسان ان
سے مل کر محو حیرت ہوجاتا ہے کہ کیسے عین جوانی میں قرون اولیٰ کے صحابہ کی طرح
انہوں نے دین کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو بلا چون و چراں پیش کردیا اور پھر کبھی
واپس مڑکر اپنے اہل و عیال کی طرف بھی نہ دیکھا۔ اور صرف یہ نہیں بلکہ یہاں بھی ان
گنت مشکلات کا سامنا کیا۔ جان کا خطرہ ہر وقت رہتا تھا تو کبھی بچے کچے مال یا
لگائے ہوئے کاروبار کے تباہ ہوجانے کا خطرہ اور کبھی جماعتی ہدایت کے پیش نظر سب
کچھ بند کرکے گھر میں بیٹھنا ہوتا۔ الغرض الفاظ میں ان قربانیوں کے قصوں کا
احاطہ ممکن ہی نہیں۔ اور آج بھی تقریباً نوے نوے سال کی عمر میں وہی
جذبہ قربانی و ایثار کا اور مضبوط عزم و ہمت اور الوالعزمی ان کی باتوں میں ان کے
لہجہ میں ان کی آنکھوں سے جھلکتی نظر آتی ہے جو جوانی میں تھی۔
اللہ
تعالیٰ ہم سب کو جماعت کی خاطر ہمیشہ ایسی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قربانی کرنے کی
توفیق عطا فرمائے تا ہم بھی ان خوش قسمتوں میں شامل ہوسکیں جنہوں نے ہمیشہ دین کو
دنیا پر مقدم رکھنے کا عملی نمونہ پیش کیا اور تاریخ میں ہمیشہ روشن ستاروں کی طرح
یاد رکھے جائیں گے۔
آج
(2015-12-31)ہمارے اس سفر کا قادیان میں قیام کا آخری دن ہے۔ کل مورخہ یکم جنوری
2016ء ہم انشاء اللہ صبح سات بجے ربوہ کے لیے روانہ ہونگے۔ ان شاء اللہ۔
قادیان
آنے کا ایک بہت بڑا سرمایہ اور دولت جو انسان سمیٹ کر اپنے ساتھ واپس لے کر جاتا
ہے وہ دعاؤں کا خزانہ ہے۔ خواہ بیت الدعا ہو، بیت الفکر ہو، بیت الریاضت ہو، سرخی
کے چھینٹوں کے نشان والا کمرہ ہو، مسجد مبارک کا پرانا حصہ ہو، پیدائش حضرت مسیح
موعودؑ کا کمرہ ہو یا مسجد اقصیٰ میں خطبہ الہامیہ کا مقام، ہر مقام پر نوافل کی
ادائیگی اور تلاوت قرآن کریم کا اپنا ایک رنگ، سرور اور کیفیت ہوتی ہے اور روحانی
تسکین کا باعث ہوتا ہے۔
ان
مقامات کی تاثیر اور خداتعالیٰ کی اپنے پیارے مسیح سے محبت اور تعلق کا ایسا اثر
موجود ہے کہ میری رائے میں خداتعالیٰ اپنے مسیح کے صدقہ اور اس سے تعلق رکھنے والے
مقامات کے صدقہ ہر کسی کی دعا کسی نہ کسی رنگ میں ضرور سنتا ہے اور قبولیت کا شرف
بخشتا ہے۔ اور میرا طریق تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کو اس کے مسیح کا واسطہ دے کر اپنی
تمام مناجات اس کے در پر رکھ دیتا ہوں۔ مجھ جیسے ناچیز اور گناہ گارکی دعائیں بھی
یوں قبول ہوجاتی ہیں۔
ان
مقامات مقدسہ پر ہر کوئی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت میں مشغول نظر آتا ہے۔ کوئی
نوافل ادا کررہا ہے تو کوئی برکتیں سمیٹنے کےلیے قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہے جبکہ ایک
اور گروہ بیٹھے ہوئے ذکر الٰہی میں مشغول ہے کوئی درود شریف کا ورد کررہا ہے۔
الغرض روحانیت کا ایسا سما ہوتا ہے کہ انسان واپس حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ کا
تصور کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ خدا کا نبی بنفس نفیس یہاں موجود تھا تو انتشار
روحانیت کس قدر ہوتا ہوگا۔ اس لیے آنے آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح کو چار بار نبی
اللہ نبی اللہ کہہ کر پکارا اور آخرین میں اس کے آنے کا گویا اپنا ہی آنا قرار دیا
اورصحابہ گویا ایسے جیسے
اصحابی
کالنجوم فبایھم اقتدیتم اھتدیتم
آج(2016-01-01)
صبح 7 بجے قادیان سے روانگی ہوئی۔ سفر کا باقاعدہ اختتام مزارمبارک حضرت مسیح
موعودؑ پر دعا سےہوا۔ اور ایک بار دوبارہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کا موقع
ملا۔ نہ جانے یہ موقع دوبارہ زندگی میں میسر آئے یا نہی۔ جاتے ہوئے مزار مبارک پر
دعا کرتے ہوئےیہ احسا س شدت پکڑتا ہے کہ اب یہ مبارک ایام اور سفرختم ہونے والا ہےاور
وہاں ہی ٹھہر جانے کو دل چاہتا ہے۔
یا تو ہم پھرتے
تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں
کے آگے کوچہ ہائے قادیان
یوں
یہ بابرکت سفر اپنی تمام برکتوں اور فضلوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام کو پہنچا۔ اللہ
تعالیٰ مجھے اور میری فیملی اور تمام آنے والے زائرین کو حقیقی رنگ میں اس سفر کی
برکات سے مستفید ہونے، خداتعالیٰ سے مضبوط اور سچا تعلق پیدا کرنے اور قائم رکھنے
اور مسیح پاکؑ کی تمناؤں کے عین مطابق حقیقی احمدی بنتے ہوئے ہمیشہ خلافت کا
وفادار رہنے اور کامل وفاداری کے ساتھ خلیفة المسیح سے رشتہ جوڑے رکھنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اللھم آمین۔